• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طالبان کے ساتھ مذاکرات کے نام پر سائے کی سائے سے آنکھ مچولی جاری ہے۔ اہل صحافت نے نہایت کشادہ دلی سے دہشت گردی کی ہر خبر کے بعد ’طالبان کا اظہار لاتعلقی‘ کی ردیف جڑنا سیکھ لیا تھا مگر طالبان ایسے گانٹھ کے پورے ہیں کہ اپنے عشاق کو مسلسل امتحان میں رکھتے ہیں۔ پہلے انہوں نے کراچی پولیس کی بس پر حملے کی ذمہ داری قبول کی پھر پشاور میں ایک ہی گھرانے کے 9افراد کو قطار میں کھڑا کر کے بھون دیا گیا۔ ایک کمسن بچی کو بطور گواہ زندہ چھوڑ دیا گیا کہ وہ جسے چاہے اپنی بپتا سنا دے۔ ایک ویڈیو بھی منظر عام پر آئی ہے جس میں چترال کے کیلاش قبیلے کو دعوت اسلام دی گئی ہے اور تبلیغ قبول نہ کرنے کی صورت میں عذاب شدید کی خوشخبری بھی ہے۔ اسی پیغام میں اسماعیلی برادری، بالخصوص آغا خان فائونڈیشن کے لئے بھی کچھ ہدایات شامل ہیں۔ اب کہو اہل دل کدھر جائیں۔ابھی تو یہ معلوم کرنا بھی باقی ہے کہ سیکولر عدالتوں کے بیک جنبش قلم خاتمے کا مطالبہ کرنے والے مولانا عبدالعزیز اٹواٹی کھٹواٹی لے کر خود ہی گھر بیٹھ گئے ہیں، انہیں طالبان سے کوئی لطیف اشارہ ملا ہے یا حکومت سمجھتی ہے کہ مولانا کا ذوق خودنمائی مذاکرات میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ مولانا یوسف شاہ کا اسم گرامی کمیٹیوں کی ابتدائی فہرست میں شامل نہیں تھا مگر سرکاری ہیلی کاپٹر میں اڑے اڑے پھر رہے ہیں۔ طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کا شکریہ واجب ہے کہ انہوں نے ایک بین الاقوامی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے ایسی دو ٹوک بات کی کہ تسمہ لگا نہیں چھوڑا۔ شاہد اللہ شاہد فرماتے ہیں کہ ان کا اصل ہدف پاکستانی فوج اور اس کی ایجنسیاں ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ طالبان کے عزائم کی راہ میں پاکستان کی فوج ہی حقیقی رکاوٹ ہے۔ انہوں نے اپنے جہاد کے دو بنیادی مقاصد بیان کیے ہیں ۔ پاکستان میں شریعت کا نفاذ اور پاکستان کی امریکہ دوستی کا خاتمہ۔ امریکی مخالفت کا تو محض بہانہ ہے، طالبان میں یہ سکت کہاں کہ عالمی قوتوں کو آنکھیں دکھا سکیں، افغانستان میں اپنے اقتدار کے دوران طالبان ہر برس امریکہ سے تین سو ملین ڈالر خیرات کی مد میں وصول کرتے رہے۔ طالبان اور ان کے حامیوں کا طریقہ واردات یہ ہے کہ امریکہ مخالفت کی دھول اڑا کر پاکستانی رائے عامہ کو حکومت سے بدظن کیا جائے۔ پاکستان کی عالمی تنہائی کو بڑھاوا دیا جائے۔ شریعت اور آئین کی بحث اٹھا کر پانی گدلا کرنے کا ایک اور مظاہرہ کیا گیا۔ خود پکڑائی نہیں دی ۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ آپ کے منہ میں کتنے دانت ہیں نیز یہ کہ شریعت کے تعین اور نفاذ کے بارے میں آپ کس طرح فریق ٹھہرے؟ شاہد اللہ شاہد فرماتے ہیں کہ ملّا عمر ہمارے امیر المومنین اور ملّا فضل اللہ خلیفہ ہوں گے۔ گویا شریعت سوات کی چیئر لفٹ ہے کہ ایک سرے پر ملّا فضل اللہ اور دوسرے سرے پر ملّا عمر رونق افروز ہوں گے۔ اس پر طرہ یہ کہ حقانی نیٹ ورک نے طالبان پر اپنا اثرونفوذ استعمال کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ یہ رہی ہماری حکمت عملی۔ پاکستان کی ریاست ایک ایسی بحث میں الجھ گئی ہے جس میں ریاست کی عمل داری پر پے در پے ضربیں پڑ رہی ہیں اور ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے اور ان کے حامی ہر روز معاملات کو الجھا رہے ہیں۔ جسے شبہ ہو، وہ عمران خان کا فوج کی استعداد کے بارے میں بیان ایک دفعہ پھر پڑھ لے۔
مذاکرات کی اس مشق کا انجام جاننا ہو تو مشتاق احمد یوسفی کی ’آب گم‘ سے ایک اقتباس ، بربنائے اختصار کچھ لفظی تصرف کے ساتھ حاضر ہے۔ نکاح کی تقریب تھی اور حسب روایت مہر کی رقم پر اختلاف تھا۔ لڑکی والوں کو اصرار تھا کہ مہر ایک لاکھ روپے ہو گا۔ لڑکے کا ماموں شرعی مہر یعنی چاندی کے پونے تین روپوں پر مصر تھا، جس کے تیرہ روپے ساڑھے پانچ آنے سکّہ رائج الوقت بنتے تھے۔ ایک دانا بزرگ نے تجویز پیش کی کہ کچھ لڑکی والے کم کریں، کچھ لڑکے والے مہر بڑھائیں۔ دونوں فریق درمیانی اوسط رقم پر سمجھوتہ کر لیں۔ اس پر ایک دوسرے عقل مند نے کہا، سردار!ہوش کرو۔ تیرہ روپے ساڑھے پانچ آنے اور ایک لاکھ کے درمیان کوئی اوسط رقم نہیں ہوتی۔ایسے میں اوسط تلوار سے نکلتا ہے۔
طالبان پورے پاکستان پر تسلط چاہتے ہیں اور ریاست مخمل کا دستانہ پہن کر انہیں قبائلی علاقوں تک محدود رکھنا چاہتی ہے۔ اگر طالبان جوابی کارروائی کی دھمکیوں میں کراچی، کوئٹہ اور لاہور کی تخصیص نہیں کرتے تو انہیں کسی مفروضہ سمجھوتے کی بنیاد پر کس طرح قبائلی علاقوں تک محدود کیا جا سکے گا۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان قبائلی علاقوں سے دستبردار ہونے کا متحمل ہو سکتا ہے۔ کیا پاکستان کی خارجہ پالیسی طالبان کے ہاتھ رہن رکھ دی جائے گی۔ طالبان کا اخلاقی کردار نہایت بلند ہے۔ وہ پولیو ورکرز پر حملوں کا اقرار کرتے ہیں اور نہ انکار۔ ہنگو اسکول پر حملے کے بارے میں ارشاد ہوا کہ یہ لشکر جھنگوی نے کیا تھا۔ لشکر جھنگوی کی مذمت تو سنائی نہیں دی البتہ حملہ آور کی مزاحمت کرنے والے اعتزاز حسین کو ہیرو ماننے سے انکار کیا گیا۔ ڈیڑھ برس بعد ملالہ پر حملے کا اقرار بھی کر لیا گیا۔ اب مولانا فضل الرحمٰن ارشاد فرمائیں کہ وہ کن شواہد کی بنیاد پر ملالہ پر حملے کو ڈرامہ قرار دیتے تھے۔ پاکستان میں عورتوں کے بارے میں امتیازی قوانین تو تیس برس سے موجود ہیں لیکن کیا پاکستانی ریاست عورتوں کے بارے میں طالبان کے تصورات قبول کر سکے گی؟ ہزارہ، اسماعیلی اور دوسرے اقلیتی مسلم فرقوں کے حقوق پر سمجھوتہ کیا جا سکے گا؟ کیا ساٹھ لاکھ غیر مسلم شہریوں کے حقوق اور آزادیوں پر طالبان کی من مانی قبول ہے؟ کیا پاکستان کی ان سیاسی قوتوں کو طالبان کا یرغمالی بنایا جا سکے گا جنہیں گزشتہ انتخابات میں دھمکیوں اور دھماکوں کے ذریعے انتخابی عمل سے باہر رکھا گیا تھا؟ کیا پاکستان میں ان صحافیوں ، ادیبوں اور دانشوروں کا خون مباح قرار پائے گا جو اپنے ایقان کی بنیاد پر طالبان کے تصور سیاست اور تمدن سے اتفاق نہیں کرتے؟ ریاست کی معیشت محض داخلی معاملہ نہیں ہوتی۔ اگر معیشت پر طالبان سے رہنمائی لینا ہے تو پھر معیشت کی ترقی بھول جائیے، معاشی بقا کی فکر کیجئے۔ طالبان کا تصور تعلیم منقولی اور جامد ہے۔ ہم تو گلگت بلتستان میں نصاب کے فقہی اختلافات پچیس برس میں طے نہیں کر سکے، اب طب ،انجینئرنگ اور ادب کی تعلیم طالبان کے سپرد کرنا چاہیں گے؟ طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بہرصورت کیا جائے گا۔ اس کے عواقب پر بھی غور کر لیجئے۔ پارلیمنٹ میں جملہ سیاسی قوتوں نے آئین سے انحراف کے امکان کو مسترد کیا ہے۔ طالبان سرے سے آئین ہی کو تسلیم نہیں کرتے اور اخبارات میں ان کے مدخولہ صحافی تجاہل عارفانہ سے پوچھتے ہیں آئین یعنی چہ؟خیال رہے کہ پاکستان مختلف وفاقی اکائیوں کے مابین اس عمرانی معاہدے پر قائم ہے جسے آئین کہتے ہیں۔ اس بنیاد کو چھیڑا گیا تو ناقابل تصور مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ طالبان کا تصور سیاست جدید ریاست کے بنیادی مفروضات سے متصادم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مذاکرات کی موجودہ مشق کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ان طوفانی لہروں میں امن کی مچھلی کچے دھاگے کی ڈور سے پکڑی نہیں جا سکتی۔ المیہ یہ ہے کہ ہم رائے عامہ کو یکسو کرنے کے لئے درکار قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں۔ برادرم ضیاء کھوکھر نے اطلاع دی ہے کہ فروری کو مست توکلی کے مزار پر حملہ کیا گیا ہے۔ انیسویں صدی کا درویش شاعر مست توکلی اپنی محبوبہ سموں کے پڑائو کے نشانات کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ اب اس کے اپنے مزار پر راکھ بکھیر دی گئی ہے۔ رحمٰن بابا ،داتا عثمان ہجویری اور مست توکلی کے دشمن نہیں جانتے کہ محبت کا پیغام پھیلانے والوں کی تربت پر تکمیل ذات کی پھوار گرتی ہے۔ ان تک نفرت کے شعلوں کی آنچ نہیں پہنچ سکتی۔ پاکستان کی روح پر کچوکے لگانے والوں کو اس کی قیمت البتہ ادا کرنا پڑے گی۔
تازہ ترین