8 فروری کی شام یہ واضح ہوجائے گا کہ انتخابات میں کس جماعت کے حصے میں کیا آیا ؟ دینی جماعتوںسے ہمدردی رکھنے والے شخص کی حیثیت سے ہماری دلچسپی یہ ہے کہ عام انتخابات میں مذہبی جماعتوں کو کس قدر کامیابی ملے گی ؟ پچھلے عام انتخابات(2018) میں پانچ مذہبی جماعتوں نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا ، ان میں جمعیت علما اسلام ف، جماعت اسلامی ، مرکزی جمعیت اہلحدیث ، جمعیت علما پاکستان ، اسلامی تحریک (تحریک جعفریہ پاکستان ) شامل تھیں ۔ ایم ایم اے کو قومی اسمبلی کے الیکشن میں مجموعی طور پر پچیس لاکھ تہتر ہزار ووٹ ملے تھے۔ قومی اسمبلی کی بارہ جنرل نشستیں انہوں نے جیتیں ، ان میں سے جماعت اسلامی نے چترال سے ایک سیٹ جیتی جبکہ باقی تمام جے یوآئی ف کی سیٹیں تھیں، انہیں تین مخصوص نشستیں ملیں ، یوں سکور پندرہ سیٹوں کا رہا۔جے یو آئی ف نے بلوچستان اور کے پی میں چند صوبائی اسمبلی کی سیٹیں جیتیں ، مگر اسے پوری مدت اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا ۔ جماعت اسلامی کی صوبائی اسمبلیوں میں کارکردگی کچھ خاص نہ رہی ، دِیر سے ایک آدھ سیٹ کے علاوہ کراچی سے ایک صوبائی اسمبلی کی سیٹ ملی۔ مذہبی جماعتوں میں دوسرے نمبر پر ٹی ایل پی (تحریک لبیک پاکستان ) رہی ، اس نے قومی اسمبلی کی سیٹوں پر مجموعی طور سے بائیس لاکھ چونتیس ہزار ووٹ لئے مگر انہیں قومی اسمبلی کی ایک سیٹ بھی نہ مل سکی،اس نے البتہ سندھ اسمبلی میں دو سیٹیں جیتیں ، ایک مخصوص سیٹ بھی مل گئی۔اللہ اکبر تحریک نے پونے دو لاکھ ووٹ لئے ۔پاکستان راہ حق پارٹی(سابقہ سپاہ صحابہ) نے پچپن ہزار آٹھ سو ، تحریک لبیک اسلام نے پچپن ہزار ، جے یو آئی نظریاتی نے چونتیس ہزار لئے۔ جے یو آئی س نے ساڑھے چوبیس ہزار ، جے یو پی نورانی نے بائیس ہزار ، مجلس وحدت مسلمین نے انیس ہزار ، سنی تحریک نے پانچ ہزار نو سو ، سنی اتحاد کونسل نے پانچ ہزار ووٹ حاصل کئے ۔دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ جے یوآئی ف کی بلوچستان کی پشتون بیلٹ اور کے پی خاص کر جنوبی اضلاع (ڈی آئی خان، ٹانک ، لکی مروت ، بنوں وغیرہ) میں پاکٹس ہیں جہاں سے وہ نشستیں نکال سکتی ہے۔ جماعت اسلامی کی خیبر پختون خوا میں اپر دیر، لوئر دیر، چترال اور بونیر میں پاکٹس ہیں جہاں سے اسے اچھا ووٹ ملتا ہے اور کبھی سیٹ بھی نکل آتی ہے جبکہ کراچی میں بھی اکا دکا سیٹوں پر جماعت اسلامی اہمیت رکھتی ہے ۔تحریک لبیک کے بارے میں البتہ اندازہ ہوا کہ اس کے متعددحلقوں میں اپنا مخصوص ووٹ ہے جو دس بارہ سے پندرہ بیس ہزار تک رہتا ہے ، اٹک کے ایک حلقے میں البتہ انہیں ساٹھ ہزار تک ووٹ ملا۔ پچھلے الیکشن اور حالیہ الیکشن میں افسوسناک سی صورتحال سواد اعظم اہلسنت ووٹ بینک کی ترجمان جماعت جمعیت علمائے پاکستان کی رہی۔ جے یوپی ماضی میں اہم نشستیں لیتی رہی ہے، اسکے مرکزی لیڈروں مولانا شاہ احمد نورانی ، مولانا عبدالستار نیازی، حاجی حنیف طیب ، علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری نے ستر اور اسی کے عشرے میں اسمبلیوں میں پہنچ کر بڑا دلیرانہ اور نمایاں کردار ادا کیا۔ پچھلے الیکشن کے موقع پر کراچی میں کئی روز قیام رہا،وہاں ایک بہت اچھی نشست بزرگ رہنما جناب حاجی حنیف طیب سےرہی، بڑی شفقت سے پیش آئے اور تفصیل سے بتایا کہ کس طرح ستر کے الیکشن میں جے یو پی کے پلیٹ فارم پر کراچی سے تین نشستیں (مولانا شاہ احمد نورانی، علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری اور مولانا شفیع اوکاڑوی ) نے جیتیں۔ سندھ اسمبلی میں جے یو پی کے شاہ فرید الحق اپوزیشن لیڈر بنے تھے۔ 1977کے الیکشن میں حاجی حنیف طیب ، پیر شاہ فرید الحق اور دیگر اہل سنت رہنماؤں نے کراچی سے اہم نشستیں جیتیں ۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں بھی اہلسنت رہنماؤں کو نو سیٹیں ملیں ۔پھر اٹھاسی میں ایم کیو ایم کا ایسا طوفان اٹھا جس نے کراچی میں مذہبی جماعتوں کے ووٹ بینک کو شدید نقصان پہنچایا۔ البتہ 2002کے الیکشن میں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے مذہبی جماعتوں نے کراچی سمیت ملک بھر میں حیران کن نتائج دئیے اور کے پی میں صوبائی حکومت بھی بنائی ۔ مولانا شاہ احمد نورانی کے انتقال کے بعد جہاں جے یو پی کئی دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ، وہاں مختلف وجوہات کی بنا پر انتخابات میں انکے نتائج بھی مایوس کن ہوتے گئے ۔ اس بار بھی مختلف اہلسنت دھڑے اپنے اپنے انداز میں سیاست کر رہے ہیں۔ نوے کے عشرے میں ڈاکٹر طاہر القادری کی منہاج القرآن اور بعد میں عوامی تحریک نے اپنے انداز سے سیاست کی، طاہر القادری صاحب ایم این اے بھی رہے اور مختلف حلقوں سے لبیک کی طرح پانچ سات سے دس بارہ ہزار تک ووٹ لے کر پریشر گروپ کی صورت بھی اختیار کی۔ اس بار منہاج القرآن نے اپنے طور پر بعض جگہوں پر مختلف پارٹیز سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے۔ لاہور کے حلقہ این اے 127 میں منہاج القرآن نے بلاول بھٹو کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ 2024ءکے الیکشن کی صورتحال یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں نے ابھی تک آپس میں کوئی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کی ۔ جماعت اسلامی کا اس بار کراچی پر خاص فوکس ہے جہاں پچھلے سال ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حافظ نعیم کی جارحانہ سیاست کی بدولت جماعت کو نمایاں حصہ ملا۔ اس بار حافظ نعیم کراچی کی دو قومی اسمبلی کی نشستوں پر الیکشن لڑ رہے ہیں، جماعت کو توقع ہے کہ وہ کراچی میں بعض حلقوں پر اپ سیٹ کر سکتی ہے۔ جماعت اسلامی کا دِیر کی دو نشستوں، چترال اور بونیر کی سیٹوں پر بھی فوکس ہے ۔ یاد رہے کہ 2013کے الیکشن میں جماعت اسلامی نے دیر سے دو اور بونیر سے ایک نشست جیتی تھی ۔کراچی کی ایک سیٹ سے اہل سنت والجماعت کے رہنما مولانا اورنگ زیب فاروقی الیکشن لڑ رہے ہیں، ایک کوشش کی گئی کہ ان کی جماعت اسلامی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوسکے، مگر بوجوہ ایسا نہ ہوسکا۔تحریک لبیک پاکستان نے پچھلے الیکشن کی طرح ملک بھر کے بے شمار حلقوں سے اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں ۔ ایک اہم ڈویلپمنٹ یہ ہوئی ہے کہ جے یو پی نورانی کے سربراہ صاحبزادہ ابوالخیرمحمد زبیر نے پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ انتخابی معاہدہ کر لیا ہے۔سوال یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کی آپس میں تقسیم کے الیکشن میں کیا اثرات مرتب ہونگے ؟ کیا مذہبی جماعتیں اور بالخصوص سنی دھڑے الگ الگ لڑ کر اسمبلی میں کتنی نشستیں لے پائیں گے؟ یہ جاننے کیلئے ہمیں چند دن انتظار کرنا ہوگا۔