بارش کے بعد کراچی کی بدترین صورتحال پر سندھ کی سابق حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو سخت تنقید کا سامنا ہے ۔ سیاسی مخالفین ہی نہیں عام شہری بھی کہہ رہے ہیں کہ کچھ دیر کی بارش نے بلدیاتی نمائندوں کی کارکردگی کی قلعی بھی کھول دی، میئر کراچی کے ماتحت واٹر بورڈ کا عملہ کدھر ہے؟ نالوں کی صفائی میں کرپشن نہ ہوتی تو نظام مفلوج نہ ہوتا۔سائنسدانوں نے کم وبیش تین عشرے قبل پیش گوئی کی تھی کہ کرہ ارض پر مختلف النوع تغیرات کے باعث عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جس کا نتیجہ آئندہ بے تحاشا بارشوں اور ہولناک سیلابوں کی صورت میں نکلے گا،یہ پیشگوئیاں من و عن درست ثابت ہو رہی ہیں۔گزشتہ سال نومبر میں دبئی میں میں ماحولیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کی عالمی کانفرنس کوپ 28 ہوئی،جس میں ماحولیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ سے لاحق خطرات سے نمٹنے کیلئے اقدامات پر سفارشات پیش کی گئیں۔ تسلیم کیا گیا کہ ان موسمی شداید سے سب سے زیادہ پاکستان جیسے ممالک متاثر ہو رہے ہیں،جن کا گرین ہائوس گیسوںکے اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے،اس حوالے سے متاثرہ ملکوں کی مالی امداد کا بھی عندیہ دیا گیا تاہم خاطر خواہ عملی اقدامات دکھائی نہ دیے۔ ہم کم و بیش ایک دہائی سے سیلابوں جیسی آفات بھگت رہے ہیں لیکن ان کے تدارک کیلئے عملی اقدامات سے تہی داماں ہیں،چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر بھی ہماری سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی چنانچہ ہمیں ہر سال ان تکالیف سے گزرنا پڑتا ہے،حکومت اس طرف دھیان دے کہ ابھی تو پچھلے سال کے سیلاب کے نقصانات کا ازالہ نہیں ہو سکا کہ پھر موسم بپھرتا چلا جا رہا ہے۔اس صورت حال پر انتخابات کے بعد قائم ہونے والی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو موسمی تبدیلیوں کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے نتیجہ خیز اقدامات کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل رکھنا ہوگا۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998