• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریاست مدینہ کے علمبردار جناب عمران خان اور روحانیت کی پرچارک بشریٰ بی بی کو عدت میں نکاح کرنے پر نہ صرف سزا ہوچکی ہے بلکہ ان کا نکاح بھی باطل اور فاسدقرار پایا ہے۔اس پر بھانت بھانت کے تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ جاری ہے اور یہ بحث کسی منطق ،اصول یا تحقیق کے نتیجے میں نہیں کی جارہی بلکہ ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر فتوے صادر فرمائے جارہے ہیں۔اسے حالات کا جبر کہیں یا پھر منافقت کا نام دے لیںلیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ نام نہاد اسلام پسند، تحریک انصاف کی محبت میں شریعت کو بالائے طاق رکھنے پر اصرار کر رہے ہیںتوبزعم خود لبرل عمران خان کی نفرت میںشرعی قوانین کے نفاذ کا دفاع کرتے پھررہے ہیں۔اگر دین اسلام کی بات کی جائے تو یہ واقعی بہت سنگین معاملہ ہے۔ حضرت عمر ؓپر قاتلانہ حملہ ہوا ،ان سے کہا گیا کہ مرنے سے پہلے کسی کو اپنا جانشین نامزد کر دیں۔ مشورہ دیا گیا کہ اپنے بیٹے عبداللہ بن عمرکو تاج وتخت کا وارث قرار دے دیں۔حضرت عمرؓ نے فرمایا،کیا میں اس شخص کوامت مسلمہ کا خلیفہ بنادوں جسے طلاق دینے کا طریقہ نہ آیا۔دراصل ان کے فرزند نے اپنی اہلیہ کو تب طلاق دیدی تھی جب وہ ایام مخصوصہ میں تھی۔قرآن میں تین مقامات پر عدت سے متعلق مدت کا تعین کیا گیا ہے۔سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 228میں نوجوان عورت کی طلاق کی صورت میں عدت کی مدت یہ بتائی گئی ہے کہ جب تین طہر گزر جائیں۔سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 234میں شوہر کے وفات پا جانے کی صورت میں بیوہ کیلئے عدت کی مدت 4ماہ قرار دی گئی ہے جبکہ سورۃ طلاق کی آیت نمبر 4میں ان بڑی عمر کی خواتین کیلئے عدت کی مدت بیان کی گئی ہے جن کے ہاں ماہواری کا سلسلہ ختم ہوچکا ہو۔اگر خاتون حاملہ ہوتو بچے کی پیدائش تک بصورت دیگر عدت کیلئےتین ماہ کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔اب ایک اعتراض تو یہ کیا جارہا ہے کہ تب سہولیات دستیاب نہیں تھیں ،اب تو محض ایک معمولی ٹیسٹ سے پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ خاتو ن اُمید سے ہے یا نہیں۔میں اس بحث میں نہیں اُلجھنا چاہتا بس اتنا کہوں گا کہ اس پر علماء اجتہاد کرلیں یا عدالتیں کوئی فیصلہ دے دیں تو الگ بات ہے ورنہ پہلے سے رائج اصولوں اور قوانین کی روشنی میں ہی فیصلے ہونگے۔بعض اصحاب کا استدلال ہے کہ عورت کی گواہی معتبر ہے ،وہی بتائے گی عدت کی مدت پوری ہوئی یا نہیں،کسی ملزم یا فریق کی گواہی کیسے معتبر ہوسکتی ہے؟تین ماہ میں ہی تین طہر ہوتے ہیں تو یہ مدت 90دن ہوگی ،ابہام کیسا؟

اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ یہ ایک نجی معاملہ ہے یا یہ سلسلہ چل نکلا تو بات بہت دور تک جائے گی اور اگر اب تک کسی اور جوڑے کو عدت میں نکاح پر سزا نہیں ہوئی تو عمران خان اور بشریٰ بی بی کیساتھ امتیازی سلوک کیوںکیا جارہا ہے؟ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 496کے تحت غیر قانونی شادی رچانے پر 7سال کی سزا متعین کی گئی ہے اور محولا بالا کیس میں اسی شق کے تحت ہی سزا سنائی گئی ہے۔بالعموم جب کوئی مرد کسی عورت کو طلاق دے دیتا ہے تو پھر اس سے لاتعلق ہوجاتا ہے اور یہ ٹوہ نہیں لگاتا کہ وہ کیا کرتی پھرتی ہے اور یہی احسن طریقہ ہے۔لیکن اگر کسی شخص کو لگتا ہے کہ اسکے حقوق متاثر ہوئے ہیں اور وہ عدالت سے رجوع کرتا ہے تو اس پر کوئی کیسے معترض ہوسکتا ہے؟میری دانست میں مذہب ،مسلک اور عقیدہ انسان کا ذاتی معاملہ ہے،ریاست کو دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے۔اسی طرح طلاق ،شادی اور عدت سے متعلق بھی میری یہی رائے ہے تاوقتیکہ کوئی فریق اپنے حقوق متاثر ہونے کی صورت میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے۔ مجھے یہ جاننے کی ضرورت نہیں کہ اس سے پہلے کتنے جوڑوں کو سزا ہوئی ہے میں تو یہ دیکھوں گا کہ کیا اس سے پہلے کسی نے عدالت سے رجوع کیا؟اب اگر خاور مانیکا نے دعویٰ دائر کردیا تھا تو ظاہر ہے اس پر کارروائی ہونا تھی۔وہ شخص جو ریاست مدینہ کی بات کرتا ہے ،ہاتھ میں تسبیح پکڑ کر لوگوں کو بیوقوف بناتا ہے ،سیاست میں اسلامک ٹچ اور مذہب کارڈ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا،ایاک نعبدو سے تقریر کا آغاز کرکے یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ بہت پاکباز اور پرہیز گار ہے،سیاسی مخالفین کے خلاف بیانیہ بنانے کیلئے مذہبی حوالے دیتاہے اور کہتا ہے کہ اس کی یہ جنگ کربلا کے معرکے جیسی ہے،یہ کیوں نہ دیکھا جائے کہ وہ خود شرعی حدود پر کتنا کاربند ہے ؟شکر کریں ،عدالت نے قانون کے مطابق سزا دی ہے ،شریعت کے مطابق سنگسار کرنے کا حکم نہیں دیا۔

اب آتے ہیں کچھ حقائق کی طرف ۔14نومبر 2017ء کو طلاق ہوئی۔یکم جنوری 2018ء کو عدت میں نکاح کرلیا گیا۔جب خبر شائع ہوئی تو تردید کردی گئی اور کہا گیا کہ ابھی تو صرف نکاح کا پیغام بھیجا ہے۔ویسے تکلف برطرف،عدت میں تو نکاح کا پیغام بھی نہیں بھیجا جاسکتا۔بہر حال فروری 2018ء میں دوبارہ نکاح ہوا۔ اعلان کردیا گیا ،مبارکبادیں وصول کرلی گئیں ۔جب عدالت میں مقدمے کی سماعت مکمل ہونے پر دفعہ 342کے تحت بیان ریکارڈ ہوا تو ملزموں نے دوسرے نکاح کی تردید کی اور کہا کہ یکم جنوری کو نکاح ہوا تھا فروری میں دعائیہ تقریب ہوئی تھی ،نکاح نہیں ہوا۔ حالانکہ دونوں مواقع پر نہ صرف گواہ مشترک تھے بلکہ نکاح خواں بھی ایک ہی تھا اور یہ سب لوگ گواہی دے چکے ہیں۔اب صورتحال یہ ہے کہ پہلا نکاح عدالت باطل اور فاسد قرار دے چکی ہے ،دوسرے کی یہ لوگ تردید کرچکے ہیں گویا اب عمران خان اور بشریٰ بی بی میاں بیوی نہیں رہے۔ البتہ جو لوگ حلالے کی بات کررہے ہیں وہ زیادتی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اڈیالہ جیل میں مولوی کو بلا کر عمران اور بشریٰ کا دوبارہ نکاح کروایا جاسکتا ہے لیکن جہاں تک سیاسی عقد کی بات ہے تو وہ پانچ سالہ عدت کی مدت پوری ہونے اور حلالہ مکمل ہوجانے کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے نیز فریق ثانی کا راضی ہونا بھی ضروری ہے۔

تازہ ترین