مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
یہ 1974ء کی بات ہے، میرا ایک دوست، ارتضیٰ لاہور میں رہتا تھا۔ اُن دنوں رابطے کے ذرائع انتہائی محدود تھے، آج کی طرح موبائل فون اور دیگر جدید سہولتیں میسّر نہ تھیں، لہٰذا خط و کتابت ہی رابطے کا اہم ذریعہ تھی۔ ایک دفعہ اُس نے مجھے خط لکھا اور لاہور آنے کی دعوت دی۔ وہ مجھے اپنے شہر کی سیر کروانا چاہتا تھا۔ مجھے بھی زندہ دل لوگوں کا شہر، لاہور دیکھنے کا بے حد شوق تھا، لہٰذا اُس کی دعوت قبول کرکے لاہور شہر گھومنے کا پروگرام بنالیا۔ اُس وقت میری پنڈی میں نئی نئی ملازمت تھی، پہلی دفعہ چھٹی لی اور لاہور کے لیے روانہ ہوگیا۔
میرا دوست وہاں کسی پریس میں رات کی شفٹ میں کام کرتا اور دن بھر فارغ رہتا تھا۔ اس کی رہائش اُردو بازار، حبیب بینک بلڈنگ میں تھی، جس کے ایک ایک کمرے میں چار پانچ افراد مل کر رہا کرتے تھے، جو مختلف اداروں میں کام کرتے تھے۔ خیر، لاہور پہنچ کر سب سے پہلے درگاہ، داتا دربار پرحاضری دی۔ اس کے بعد مختلف بازار اور دوسری مشہور جگہوں کی سیر کی۔ اگلے دن مَیں نے اُس سے فلم اسٹوڈیو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی، تو اُس نے کہا کہ ’’وہاں کچھ لوگ میرے واقف ہیں، کل تمہیں وہاں لے چلوں گا۔‘‘ دوسرے روز شام کو وہ مجھے ایورنیو اسٹوڈیو لے گیا۔
وہاں اُس نے اپنے واقف کار سے میرا تعارف کروا کر اس سے درخواست کی کہ’’ میرا یہ دوست پنڈی سے آیا ہے، اسے اسٹوڈیو دیکھنے کا بہت شوق ہے، اگر آپ یہ خواہش پوری کردیں، تو بڑا کرم ہوگا۔‘‘ وہ کہنے لگا کہ ’’یار!تم میرے دوست ہو، تمہاری بات کیسے رَد کرسکتا ہوں، مگر چوں کہ یہاں سیکیوریٹی سخت ہے، اس لیے ایک شرط پر اسٹوڈیو لے جاسکتا ہوں۔ اندر ایک فلم کے سیٹ پر قیدیوں کی شوٹنگ ہورہی ہے، تو اِسے وہاں قیدیوں والا لباس پہن کر جانا پڑے گا، اسی طرح یہ اندر سے فلم اسٹوڈیو دیکھ سکے گا۔‘‘ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ میرے دوست کا وہ واقف کار’’ایکسٹرا سپلائر‘‘ تھا، جو فلم کے مختلف سینز کے لیے ’’ایکسٹراز‘‘ مہیّا کرتا تھا۔ بہرحال، شوق کی خاطر اس کی شرط قبول کرکے اندر چلا گیا۔
اسٹوڈیو میں بہت سے لوگ تھے، سب کو قیدیوں والا ایک ایک جوڑا دیا گیا، مجھے بھی ایک جوڑا مل گیا، جسے پہن کر مَیں بھی اُن میں شامل ہوگیا۔ کچھ دیر بعد ہمیں ایک فلم سیٹ پر لے جایا گیا، یہ غالباً ایک پنجابی فلم ’’استاد‘‘ کا سیٹ تھا۔ سیٹ پر مشہور اداکار، سلطان راہی کے علاوہ کئی جانے پہچانے اداکار دکھائی دیئے، جو اکثر فلموں میں نظر آتے تھے۔ خیر، شوٹنگ شروع ہوئی، سردیوں کے دن تھے، ایک قمیص اور ایک پاجامے میں سردی سے دانت بج رہے تھے، لیکن شوق کی وجہ سے مجبور تھا۔ اس دوران متعدد شارٹ مکمل ہوتے دیکھ کر اس بات کا اندازہ ہوا کہ فلم میں اداکاری کرنا کتنا کٹھن اور مشکل کام ہے۔
پھر تھوڑا وقت گزرا، تو بوریت محسوس ہونے لگی اور دُعا کی کہ یااللہ! شوٹنگ کا یہ سلسلہ جلد مکمل کروادے تاکہ جان چُھوٹے۔ رات کا شاید ایک بج چکا تھا، بھوک اور شدید سردی سے بُرا حال تھا، جب کہ ڈائریکٹر صاحب کی خواہش تھی کہ زیادہ سے زیادہ کام مکمل کیا جائے، البتہ ہم لوگ چاہ رہے تھے کہ جلد کام ختم کرنے کا اعلان ہو، تاکہ ہم فارغ ہوں۔ اچانک اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ سلطان راہی صاحب ایک دم اُٹھے اور اپنی گرج دار آواز میں کہنے لگے ’’مَیں واش روم جارہا ہوں، وہاں سے واپس آکر کام مکمل کروائوں گا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ تیزی سے باہر چلے گئے۔ جب کافی دیر گزر گئی اور وہ نہیں آئے، تو فلم کے ڈائریکٹر نے کسی کو بھیجا کہ دیکھے راہی صاحب کہاں رہ گئے۔ تھوڑی دیر بعد اُس شخص نے آکر بتایا کہ چوکیدار کہہ رہا ہے کہ راہی صاحب تو گاڑی میں بیٹھ کر گھر چلے گئے ہیں۔ ڈائریکٹر کو یہ سن کر غصّہ تو بہت آیا، لیکن کیا کرتے، شوٹنگ رُک گئی اور کام ٹھپ ہوگیا۔
ہم نے دل میں شُکر ادا کیا کہ جان چُھوٹی۔ بہرحال، ہم نے اپنے اپنے کپڑے تبدیل کیے، تو سردی سے کچھ آرام ملا۔ انتظامیہ کی جانب سے طعام کا خاص اہتمام تھا۔ آلومٹر، انڈے کا سالن اور روٹی سے سب کی تواضع کی گئی، وہاں سے نکلنے لگے تو اپنے وقت کے مشہور ہدایت کار، اقبال کاشمیری (مرحوم) نظر آئے، وہ بھی اس فلم میں اداکاری کر رہے تھے۔ خیر، اسٹوڈیو سے باہر نکل کر مرکزی شاہ راہ سے رکشا لے کر اردو بازار پہنچ گئے۔ فلم والوں نے اس وقت 5؍ روپے دیئے، جس میں سے 2؍ روپے رکشے والے کو دیئے اور 3؍ روپے سے اگلے دن نہاری کا ناشتا کیا۔
یہ خوش گوار تجربہ زبردست رہا اور زندگی بھر کے لیے ایک یادگار بن گیا۔ بعد میں بھی مَیں اسٹوڈیو گیا، لیکن ایکسٹرا بن کر نہیں، وزیٹر کے طور پر۔ اس دوران بہت سے نام وَر اداکاروں اور اداکارائوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، جن میں منور ظریف، رنگیلا، شبنم، قوی، اسد بخاری سمیت بہت سے اداکار شامل تھے۔ (شیخ ظہیر احمد، اڈیالہ روڈ، راول پنڈی)