الیکشن کے بعد کا مرحلہ شروع ہوچُکا اور یہ سب سے کڑی آزمائش بھی ہے۔شاید کسی اور قوم کے لیے کم زیادہ ہو، لیکن پاکستانیوں کے لیے تو یہ پُلِ صراط سے کم نہیں کہ جو بویا تھا، وہ کا ٹ رہے ہیں۔اب حکومت بنانے کا مرحلہ شروع ہو رہا ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ معمول کی بات ہے اور اِس میں جذباتی ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔اتحادی حکومتیں جرمنی سے جاپان تک سب ہی جگہ بنتی ہیں، البتہ وہ چلتی کس طرح ہیں،اِس امر پر غور کرنا ہوگا، کیوں کہ یہ ایک بہت ہی سنجیدہ عمل ہے۔اگر اتحادی حکومت کم زور ہو، تب بھی اس میں مختلف نظریۂ فکر سے وابستہ افراد یا جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کا موقع ملتا ہے۔
ہاں ،اگر واضح اکثریت سے کوئی حکومت بنائے، تو پھر قانون سازی آسان ہوجاتی ہے اور اپنے منشور پر عمل بھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں یہ کام کرسکیں گی یا پھر لانگ مارچز اور احتجاج کے ذریعے کسی نئے انتخابی مرحلے میں داخل ہوں گی۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ بڑی جماعتوں کو اِس امر کا بخوبی ادراک ہے کہ ہمارا اصلی چیلنج معاشی ہے، اِسی لیے انتخابی مہم میں معیشت ہی پر فوکس رہا۔مسلم لیگ نون اور پی پی پی جیسی بڑی جماعتوں نے عوام کے فوری مسائل حل کرنے کے لیے بڑے بڑے وعدے کیے، جن میں اہم ترین عہد منہگائی سے پِسے عوام کو ریلیف سے متعلق تھا۔
روزگار، افراطِ زر، ڈالر کی بڑھتی قیمت، گھروں کی تعمیر اور توانائی جیسے امور پر بھی زور دیا گیا۔یہ ضرور ہے کہ ان وعدوں کی فوری تکمیل ممکن نہیں، لیکن کہ اگر معاشی سمت کا تعیّن کر لیا جائے، ایک اچھی ٹیم میدان میں اُتاری جائے، ماہرین سے روابط مضبوط ہوں اور سرمائے کے حصول کی نشان دہی کی جائے، تو مسائل جلد حل ہوسکتے ہیں۔عوام، بالخصوص نوجوانوں کو اس امر کا احساس ہونا چاہیے کہ اُنہوں نے اپنی لاعلمی یا حماقتوں سے جو بگاڑ پیدا کیا، اُس کے حل کے لیے اب انتظار تو کرنا پڑے گا۔گولڈن ٹچ، جادوئی چَھڑی، حکومتوں کو لعن طعن کرنے یا سڑکوں پر احتجاج سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔
میڈیا، ماہرین اور دانش وروں کو بھی معلوم ہوگا کہ اِن حالات میں پہلے دن سے کائونٹ ڈائون شروع نہیں کرنا چاہیے کہ وہ خود اِس امر کا باربار عوام کے سامنے اعتراف کرتے رہے ہیں کہ معاشی بحالی دس، بیس سال سے کم میں ممکن نہیں ہوگی۔اس ضمن میں چین، جاپان، بنگلا دیش اور بھارت کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔دُکھ تو یہ ہےکہ جو قوم اپنی60 فی صد نوجوان آبادی پر فخر کرتے نہیں تھکتی، وہ صرف اِس لیے زبوں حالی کا شکار ہوئی کہ اُس نے انتہائی سستی کا مظاہرہ کیا۔وہ نعرے سنتی رہی، نغموں پر ناچتی رہی، لیکن کام کوئی نہیں کیا۔کوئی ویژن نہیں تھا، صرف بیرونِ مُلک سے اربوں ڈالرز کا انتظار رہا اور جب وہ نہیں آئے، تو مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ہاتھ پائوں مارنے لگی۔کیا کسی عظیم قوم تو کیا، کسی نارمل قوم کے بھی یہ رنگ ڈھنگ ہوتے ہیں۔
انتخابات جمہوریت کا بنیادی عُنصر ہیں، تاہم اِس کے لیےضروری ہے کہ عوام نے اپنے مسائل مدّنظر رکھتے ہوئے فیصلہ دیا ہو، تو اب یہ عوام ہی کو پتا ہوگا کہ اُنہوں نے ایسا کیا یا نہیں، لیکن یہ طے ہے کہ پاکستانی قوم کو آگے بڑھنا ہے اور اس کے علاوہ کوئی آپشن بھی نہیں ہے۔مایوسی کی راہ چھوڑنی ہے کیوں کہ ہم خود کہتے ہیں کہ مایوسی کفر ہے، تو پھر کفر کیسے کرسکتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ حالیہ انتخابات میں خارجہ پالیسی ایشو نہیں بنی، جو مُلک کے لیے ایک بڑی اور بنیادی تبدیلی ہے، وگرنہ اِس سے قبل دنیا بَھر کے تنازعات پر خواہ مخواہ وقت ضائع کیا جاتا رہا، جیسے کہ ہم ہی دنیا کے ٹھیکے دار ہیں۔ شاید ہمیں اندازہ ہوگیا ہے کہ کم زور معیشت کے ساتھ خطّے اور عالمی سطح پر ہمارا کردار بہت محدود ہے، خاص طور پر افغان جنگ کے خاتمے کے بعد تو ہم بہت سمٹ گئے ہیں۔
مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف کی یہ بات بہت اہم ہے کہ کیا ہم دنیا سے کٹ کر ترقّی کر سکتے ہیں؟اِس بات میں یہ اضافہ کیے دیتے ہیں کہ’’ خاص طور پر اس صُورتِ حال میں جب ہماری معیشت کا دارومدار قرضوں پر ہو۔‘‘نیز، کسی بھی پارٹی نے آئی ایم ایف کو فوراً خیرباد کہنے کی بات نہیں کی، یعنی یہ باب کُھلاہوا ہے۔اب اس سے معاملات کس طرح طے کرنے ہیں، یہ نئی حکومت کے لیے ایک بڑا امتحان ہوگا۔تاہم، ایک بات طے ہے کہ قوم کی مزید معاشی عیاشی اور فضول خرچی برداشت نہیں کی جا سکتی، وگرنہ کوئی بھی حکومت آجائے، گراوٹ جاری رہے گی۔
اُمید تو یہی ہے کہ قوم، خاص طور پر پڑھے لکھے افراد اُن لمحات کو نہیں بھولے ہوں گے، جب پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے وزرائے اعظم دوست ممالک کے سامنے ایک، ایک ارب ڈالر کے لیے گڑگڑاتے رہے اور آئی ایم ایف ناک رگڑواتی رہی۔ یہ اصل میں پوری قوم کی سبکی تھی، چاہے اسے کسی کے نام سے جوڑ دیا جائے۔یہ بڑی تلخ یادیں ہیں،جنہیں سال، دو سال بھی نہیں گزرے اور انہیں بھولنا اِس لیے بھی ممکن نہیں کہ حالات جُوں کے تُوں ہیں۔ منزل کٹھن ہے اور راستے بہت طویل ہیں۔ نوجوانوں سے ایک اور گزارش یہ ہے کہ اِدھر اُدھر بھٹکنے سے کچھ نہ ہو گا، وہ دانش ور جو بیرونِ مُلک اسائیلم کے مزے لوٹ رہے ہیں، آزمائے ہوئے ہیں۔ ذرا اُن کی ماضی کی تن خوائیں اور مراعات ہی دیکھ لیں۔
درحقیت، کھیل تو اب شروع ہوا ہے۔ہمارے ہاں گرینڈ معاشی ڈائیلاگ کا بہت ذکر کیا جاتا ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں متفق ہوں ،تو ڈائیلاگ ضرور ہونے چاہئیں، لیکن دھیان رہے کہ کل کلاں کوئی اسی کو نشانے پر نہ لے لے، جیسے میثاقِ جمہوریت کے ساتھ ہوا۔ اصل اہمیت پارلیمان کی ہے، لہٰذا اِس طرح کے ڈائیلاگ کسی گول میز کانفرنس یا اجتماعات کی بجائے پارلیمان ہی میں ہونے چاہئیں تاکہ اس کی بالادسی قائم رہے۔پھر یہ کہ اِس طرح کی سرگرمی محض عوام کو خوش کرنے کے لیے نہ ہو، بلکہ اِس کے ذریعے اُنھیں واضح سمت دی جائے اور مُلکی ترقّی کے لیے رات دن ایک کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جائے۔یہ بات کہنے میں جتنی آسان لگتی ہے، عملی طور پر اُتنی ہی مشکل ہے۔
ایک ایسی قوم جو قرض کی مئے پینے کی عادی ہو، جس نے کبھی اپنے رہنماؤں سے یہ نہ پوچھا ہو کہ جو قرض لیتے ہو، وہ جاتا کہاں ہے۔ٹیکنالوجی کی باتیں ہوتی ہیں، لیکن وہ کہاں ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ جس مُلک کی پارلیمان دنیا بَھر کے تنازعات پر تو جذباتی قراردادیں منظور کرتی ہو، لیکن اُسے اپنے عوام کی حالت نظر نہ آتی ہو اور لوگ بھی نہ پوچھتے ہوں کہ پارلیمان میں کیا ہورہا ہے، وہاں کیا توقّعات رکھی جائیں۔افسوس تو یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی پارلیمان کو مذاق بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سیاسی جماعتیں اس پر تنقید نہیں، اس کی تحقیر کرتی ہیں۔
شاید ہم نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ یہ ہمارے اپنے منتخب نمائندے ہیں، انہیں نیچا دِکھا کر درحقیقت ہم خود نیچے جارہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے جس طرح پارلیمان کی ٹرولنگ کی گئی، اس سے ریاستی اداروں پر کاری زخم لگے۔منتخب نمائندوں کے احتساب کا اصل فورم پارلیمان ہے، لیکن اگر اسے بے اثر کر کے فیصلہ ٹاک شوز، سڑکوں یا عدالتوں میں کیا جائے، تو پھر وہی کچھ ہوگا،جو گزشتہ دو برسوں میں دیکھنے کو ملا۔پنچاب میں ڈیڑھ سال تک کوئی منتخب حکومت ہی نہ رہی اور صوبائی اسمبلی روز نیا تماشا پیش کرتی رہی۔شاید شعوری کوشش کی گئی کہ بڑے صوبے کے عوام کا ہر جمہوری ادارے سے اعتبار اُٹھ جائے اور اُنھیں اپنا مُلک بنانا ری پبلک یا دیوالیہ نظر آئے۔
ٹھیک ہے، تنقید ہونی چاہیے اور مثبت رپورٹنگ کا درس بھی مناسب نہیں، لیکن ذمّے دارانہ تنقید کی اہمیت بھی نظرانداز نہیں کی جانی چاہیے۔حُکم رانوں اور وزراء سے سو اختلاف کریں، ان کا کڑا محاسبہ کریں، لیکن اُنہیں کام تو کرنے دیں۔ یہ نہیں کہ اِدھر کوئی وزیرِ اعظم بنا، اُدھر اس کے خلاف تحریک شروع کردی گئی۔نیز، عدلیہ کو بھی پارلیمان کا متبادل بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ہر آئینی ادارے کی حدود متعیّن ہیں، تو اگر وہ اپنی حدود میں رہیں گے، تو بہت سے مسائل خود ہی حل ہوجائیں گے۔
حکومتوں کا احتساب پارلیمان اور عوام کو کرنے دیں، وگرنہ ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ جب عوام کے ٹیکسز سے ملنی والی بھاری مراعات کسی کو بھی دست یاب نہ رہیں۔ حکومت میں آنے والوں کو یقیناً علم ہوگا کہ جمہوریت صرف رولنگ پارٹی کا نام نہیں بلکہ یہ اپوزیشن اور حکومت، دونوں سے مل کر بنتی ہے۔کسی کو نیچا دِکھانے یا جیل میں بھیجنے سے افراتفری کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا اور ان سے زیادہ کون جانتا ہے کہ اب اس طرح کے اقدامات کی کوئی گنجائش نہیں۔پاکستانی قوم پہلے ہی بہت تکلیف دہ تقسیم دیکھ چُکی ہے، جو کسی نظریے کی بجائے ذاتی دشمنی یا مخالفت پر مبنی تھی۔
دنیا غضب کی چال چل رہی ہے، بہت سے مسلم ممالک بھی ترقّی کرتی دنیا کے ہم قدم ہیں۔بنگلا دیش، تُرکیہ، سعودی عرب، انڈونیشیا اور ملائیشیا رول ماڈل بن چُکے ہیں۔ہمارے بہت سے نوجوان وہاں گئے، اُن کی ترقّی، محنت اور حکومت چلانے کے طور طریقے دیکھے، لیکن اُن سے رتی بھر سبق نہ سیکھا۔ہم نے جان بوجھ کر امریکا، برطانیہ اور یورپ کا ذکر نہیں کیا، کیوں کہ وہاں تو پاکستانی لاکھوں کی تعداد میں آباد ہیں۔
وہ یہاں آتے ہیں، تو ڈالر، پائونڈ اور یورو خرچ کر کے لوگوں کی آنکھیں چکاچوند کر دیتے ہیں، لیکن ترقّی کا کوئی چھوٹا سا حصّہ بھی یہاں اپنے لوگوں تک منتقل نہیں کرتے، حالاں کہ اِس مُلک نے اُنہیں یا ان کے بزرگوں کو اس قابل بنایا کہ وہ آج سر اٹھا کر چلتے ہیں۔وہ خود کو امریکن، برٹش یا یورپین کہتے ہیں، لیکن کبھی خود سے پوچھیں کہ کیا وہ وہی کام کرسکے، جو چین کے نوجوان، بھارت، بنگلا دیش، ویت نام اور انڈونیشیا کے تارکین، وطن نے اپنے مُلک کے لیے کیا۔حکومتوں اور اداروں پر تنقید آسان ہے، لیکن اپنے گریبان میں بھی جھانک لینا چاہیے۔