خوشی کی بات یہ ہے کہ تمام تر شکوک و شبہات کے باوجود انتخابات ہونے جارہے ہیں اور وہ بھی اپنی مقرّرہ تاریخ پر۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بجا طور پر اس کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اُنہوں نے قوم کو تذبذب سے نکال کر یقین و اعتماد دیا اور 8فروری کو انتخابات کے لیے پتھر کی لکیر بنادیا۔ شیر، بلّے، تیر اور پتنگ تو آتے جاتے رہیں گے، لیکن جمہوریت ایک بار پھر چلے گی۔ نیز، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو، جسے ایک جماعت نے فُٹ بال بنانے کی کوشش کی ، اُس کی وہ طاقت واپس کردی، جس کا وہ نہ صرف آئینی طور پر حق دار تھا، بلکہ جس کے بغیر انتخابات کا انعقاد ہی ناممکن ہوجاتا۔
پڑوسی مُلک بھارت میں اگر کوئی الیکشن کمیشن کی طرف انگلی بھی اُٹھا دے، تو اُسے تین ماہ کے لیے جیل یاترا کرنی پڑ سکتی ہے۔ بنگلا دیش کے حالیہ انتخابات میں بھی وہاں کے الیکشن کمیشن کی طاقت سامنے آئی۔ امریکا، برطانیہ اور کینیڈا میں لاکھوں پاکستانی رہتے ہیں، وہ وہاں کے الیکشن کمیشن پر الزامات لگا کر دیکھیں۔ مُلک میں جمہوریت اور تمام جماعتوں کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ کے مطالبے تو ہر روز کیے جاتے ہیں، لیکن کوئی یہ بھی بتادے کہ اگر الیکشن کمیشن کا سربراہ اور ارکان روز گالیاں کھاتے رہیں، اُن کے اقدامات کو بدترین ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑے، تو یہ آئینی ادارہ اپنا کام کس طرح کرے گا۔چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو درست قرار دے کر اس کا اعتماد بحال کیا۔
حالاں کہ جس الیکشن کمیشن پر تنقید ہو رہی ہے، اُسی نے دو بڑے ضمنی انتخابات کروائے، جن میں سے ایک میں مسلم لیگ نون اور دوسرے میں پی ٹی آئی جیتی۔لیکن جب اس نے کچھ اور فیصلے کیے، تو پھر سارا ملبہ اُس پر اور سپریم کورٹ پر ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جب سابق چیف جسٹس حکومتیں اُلٹتے، ارکانِ اسمبلی کو ڈی سیٹ کرتے، تو اُن کی خُوب واہ واہ کی جاتی، لیکن اگر کوئی فیصلہ خلاف آگیا، تو بُرا مان گئے۔ڈونلڈ ٹرمپ اِس وقت امریکا میں سب سے پسندیدہ صدارتی اُمیدوار ہیں، مگر پھر بھی وہ اچھے، بُرے عدالتی فیصلوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ڈیوڈ کیمرون بریگزٹ کے خلاف فیصلے پر چُپ چاپ گھر چلے گئے۔
اندرا گاندھی، جو بھارت میں1971ء کے بعد دیوی کا درجہ حاصل کرگئی تھیں، 1974ء میں ایک غلطی پر چار سال نااہل رہیں۔راہول گاندھی ایک صوبائی عدالت کے فیصلے پر دو مہینے سے جیل میں ہیں، حالاں کہ وہاں الیکشن سر پر ہیں، تو کیا اُن کی پارٹی یہ دُھائی دے رہی ہے کہ اُسے انتخابات سے آؤٹ کردیا گیا ہے اور جمہوریت ختم ہوگئی ہے۔ سیاست میں حوصلہ، صبر اور لچک ہی کام آتی ہے۔ جب اقتدار کا مزہ لیتے ہیں، تو اپوزیشن کی سختیاں بھی برداشت کرنی آنی چاہئیں۔
اُمید تو یہی ہے کہ ووٹرز اِس بار’’ وکٹم کارڈ‘‘ پر فیصلہ نہیں کریں گے کہ ماضی میں ایسے تماشے بہت ہوچکے۔ خراب معیشت کی دُھائی دیتے ہیں، تو پھر ووٹ سے اُسے ٹھیک کرنا بھی سیکھیں۔ گزشتہ پانچ برسوں سے مُلک کے ہر فرد کا ایک ہی رونا ہے کہ’’ منہگائی بہت بڑھ گئی، معیشت بیٹھ گئی، قرضے چڑھ گئے، روزگار کے مواقع کم ہو گئے‘‘، لیکن اگر الیکشن کے ایشوز دیکھیں، تو بہت مایوسی ہوتی ہے۔
یوں لگتا ہے، قوم کا ایک حصّہ اب تک کسی خیالی اور جذباتی دنیا ہی میں گم ہے۔ حقیقی آزادی، غلامی سے نجات، کلٹ کی سیاست، توہینِ عدالت اور انتخابی نشانات جیسے معاملات ہی منظرنامے پر چھائے ہوئے ہیں۔ کیا قوم اگلے پانچ سال بھی اِسی گورکھ دھندے میں پھنسی رہے گی، خوش حالی کے خواب کبھی پورے نہ ہوں گے؟ قوم کا ہر فرد جانتا ہے کہ اُسے منہگائی نے پِیس ڈالا ہے۔ وہ اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کے قابل نہیں رہا،جب کہ اس کے برعکس، ہمارے چاروں طرف ترقّی کی دوڑ جاری ہے۔ ہر مُلک کے عوام اُس پارٹی اور لیڈر کو منتخب کر رہے ہیں، جو اُنھیں ترقّی دے سکے، جس کے پاس کوئی معاشی ویژن ہو، مُلک کو آگے لے جانے کا واضح پلان ہو۔
ہمارے ہاں چین کا بہت ذکر ہوتا ہے، جس نے سی پیک کے ذریعے ہمیں ترقّی کی دوڑ میں شامل کرنے کی کوشش کی، جب کہ عرب ممالک بھی ہماری گفتگو کا موضوع رہتے ہیں، جنہوں نے ہمیں انتہائی نازک وقت میں اربوں ڈالرز کے قرضے اور مؤخر قیمتوں پر تیل مہیّا کرکے دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ اس مدد کی وجہ کیا تھی۔اگر اُن کی معیشت مضبوط نہ ہوتی، تو کیا وہ اچھے اور برادرانہ جذبات رکھنے کے باوجود ہمارے لیے کچھ کرسکتے تھے۔ جو خود اپنے پیروں پر نہ کھڑاہو، وہ کسی دوسرے کو کیا سہارا دے گا۔
پاکستان میں کثیر الجماعتی جمہوری نظام رائج ہے، بالکل اسی طرح، جیسے برطانیہ، فرانس، بھارت، کینیڈا، انڈونیشیا، ملائیشیا یا پھر بنگلا دیش میں ہے۔یہاں پارلیمان سپریم ہے، جہاں منتخب نمائندے مُلک چلانے کے فیصلے کرتے ہیں۔تاہم، دُکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم بار بار پٹری سے اُتر جاتے ہیں یا اُتار دیئے جاتے ہیں۔کبھی نظریۂ ضرورت کے تحت، تو کبھی ہائبرڈ حکومتوں کے نظام کی طاقت سے، سب کچھ لپیٹ دیا جاتا ہے۔2018ء کا ناکام اور نامُراد تجربہ ہی دیکھ لیا جائے، تو اندازہ ہوجائے گا کہ جو قوّتیں یہ کھیل کھیلتی ہیں، وہ کس طرح واپس اُسی صفر پر آکھڑی ہوتی ہیں، جہاں سے سفر شروع کیا گیا تھا۔
نون لیگ اور پیپلز پارٹی سے متعلق کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے حکم رانی اور سیاست کے تجربے سے یہ سیکھ لیا کہ اگر سیاست کو دشمنی میں بدل دیا جائے، تو نقصان بہرحال پارٹیوں اور قومی جمہوریت کا ہوتا ہے، اِسی لیے بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے میثاقِ جمہوریت کے ذریعے حالات میں بہتری لانے کی کوشش کی۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ وہ اختلافات اور تلخ انتخابی بیانات کے باوجود اب تک اسی معاہدے پر قائم ہیں، جس کی سب سے بڑی مثال عدم اعتماد کی وہ تحریک ہے، جس کے ذریعے اُنہوں نے پی ٹی آئی حکومت کو چلتا کیا۔
یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اِس اقدام سے ان جماعتوں یا قوم نے نقصان اُٹھایا۔ کہا جاتا ہے کہ بڑھتی منہگائی سے ان جماعتوں کو شدید نقصان پہنچا، اِس لیے بہتر یہی تھا کہ وہ حکومت نہ بناتیں، لیکن یہ قومی سوچ نہیں ہے۔اوّل تو پہلی مرتبہ آئینی عدم اعتماد کے ذریعے پارلیمان میں ایک حکومت کی جگہ دوسری حکومت آئی۔ برطانیہ، بھارت اور یورپی ممالک بلکہ جاپان تک میں یہ عام روایت ہے، اس پر کوئی پارٹی کاغذ لہرا لہرا کے سازشوں کا انکشاف نہیں کرتی اور نہ ہی عوام ایسی بے پر کی باتوں پر کان دھرتے ہیں۔ عوام اُسی پارٹی کو فوقیت دیتے ہیں، جو اُن کے مسائل حل کر سکے اور ترقّی کے سمت جاسکے، اسی لیے وہ آج عزّت دار قومیں ہیں، ہماری طرح ہر وقت رونے پیٹنے والے ہجوم نہیں، جو ویسے تو ہر وقت پس ماندگی کا رونا روتے ہیں، لیکن انتخابات کے وقت جذبات میں بہہ جاتے ہیں۔
اگر ہمیں سال کے ہر روز اور ہر گھنٹے’’ ہائے منہگائی، ہائے بے روزگاری‘‘ کا گلہ کرنے کے بعد بھی یہ نہیں پتا چلا کہ ہمارے اصل مسائل کیا ہیں، تو پھر ہمیں مزید ہائے ہائے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت نے سیاسی قوّتوں کو مضبوط کیا۔پی ٹی آئی کے عدم استحکام پیدا کرنے والے لانگ مارچز، اسمبلیاں توڑنے اور ہم خیال بینچز کے فیصلوں کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرتے ہوئے پارلیمان کی بالادستی قائم کی۔
ایوان نے قابلِ تحسین قانون سازی کی، جس میں سپریم کورٹ پروسیجرز ایکٹ بھی شامل ہے۔اس میں شک نہیں کہ بہت کچھ اچھا اور بہتر طریقے سے کیا جاسکتا تھا، لیکن اس کے لیے ایک تو وقت کم تھا، دوسرا بگاڑ بہت زیادہ تھا، پھر جس طرح مُلک کو پراپیگنڈے اور کلٹ کی سیاست سے تقسیم کر کے پاپولرازم کوعام کیا گیا، ایسے ماحول میں شاید اس سے زیادہ ممکن نہیں تھا۔ایف اے ٹی ایف کی فہرست سے نکلنا، خود کو آئی ایم ایف سے منوانا اور دنیا سے روابط بحال رکھنا آسان کام نہیں تھے۔
اگر عدم اعتماد کے بعد ڈیڑھ سال کی حکومت کو صبر سے پارلیمان میں برداشت کر لیا جاتا، تو آج صُورتِ حال بہت بہتر ہوتی، اُن کے لیے بھی جنہیں ناانصافی کی شکایت ہے اور اُن کے لیے بھی، جو حکومت میں تھے۔اور سب سے زیادہ عوام کے لیے حالات بہتر ہوتے، جو اب معمول کے طریقے سے ووٹ کے عمل سے گزر رہے ہوتے۔ آخر اِتنی گرد اُڑانے کی ضرورت ہی کیا تھی، جب اُسے بیٹھ ہی جانا تھا۔
جہاں سیاسی رہنماؤں، جماعتوں اور اداروں کو بہت کچھ سیکھنے اور اپنی غلطی مان کر اپنی حدود پہچاننے کی ضرورت ہے، وہیں ہمارے میڈیا اور عدلیہ کو بھی اپنے رویّوں کی طرف دیکھنا ہوگا۔ میڈیا کی آزادی سر آنکھوں پر، لیکن اُسے بھی اُس ضابطۂ اخلاق کی پابندی کرنی چاہیے، جو اس کے نصاب کا حصّہ ہے۔ ہر ایک کو پسند ہے کہ میڈیا میں اپنے رہنما یا مسیحا کی تعریف کرتا رہے اور یہ کسی ایک پارٹی یا لیڈر کی بات نہیں، یہ ہر ایک کی فطری کم زوری ہے۔اِسی لیے تو جماعتیں، ادارے اور شخصیتیں اربوں ڈالرز خرچ کرتی ہیں۔
بادشاہتوں کے زمانے میں قصیدہ خواں یہ کام سرانجام دیا کرتے تھے،’’ با ادب، با ملاحظہ،ہوش یار…‘‘ بادشاہوں کے آنے جانے کے عام آداب تھے۔ پھر جدید دَور میں ہٹلر جیسے آمروں نے گوئیبلز جیسے سفّاک میڈیا مینجرز کے ذریعے نئے نئے طریقے گھڑے، مخالفین کے خلاف وہ غلیظ اور جھوٹے بیانیے چلوائے، جنھیں میڈیا سائنس میں باقاعدہ ایک مضمون کا درجہ حاصل ہے، لیکن ان دونوں آقا اور غلام کا انجام عبرت ناک رہا۔پاکستان جیسے کم زور جمہوری ممالک میں میڈیا کا اِس طرح کا استعمال عام رہا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔
بہت سے صحافیوں کا مقصد خبر دینا یا تجزیہ کرنا نہیں ہوتا، بلکہ وہ مخالفین پر کیچڑ اچھالنے اور اپنے پسندیدہ رہنما کی تعریف کے لیے یہ سب کچھ کرتے ہیں۔ففتھ جنریشن وار اور ہائبرڈ وار فیئر جیسے ناموں سے پڑھے لکھے ذہنوں کو جنونی اور پراپیگنڈے کا ہتھیار بنایا گیا۔اس کی تازہ مثال سپریم کورٹ کے خلاف سوشل میڈیا پر وہ غلیظ مہم ہے، جو تنقید اور آزادیٔ صحافت کے نام پر چلائی جارہی ہے۔ یہ کھیل اگر یونہی جاری رہا، تو میڈیا، خاص طور پر سوشل میڈیا کے شہہ سواروں کو سخت پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کیوں کہ دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر قدغنیں لگ رہی ہیں، جنہوں نے اسے بنایا، اب وہ خود اسے واپس بوتل میں بند کر رہے ہیں۔
یورپ میں الزام بازی پر اربوں ڈالرز کے جرمانے ہورہے ہیں۔عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ صحافی، تجزیہ کار ہیں یا کسی جماعت کے پراپیگنڈا مینیجر، بیک وقت دو ٹوپیاں پہننا ٹھیک نہیں۔ کسی جماعت، لیڈر یا ادارے کے لیے استعمال ہوں، نہ اُن کے خلاف صحافت کو جہاد کا درجہ دیں۔ ہر شخص کو ہر وقت بے وقوف بنانا ممکن نہیں، حقیقت تو آخر کُھل ہی جاتی ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کو ہر سیاسی مسئلے میں اُلجھانا، اُس کے لیے عزّت و توقیر کا باعث بنا، نہ خود ان پارٹیوں، شخصیات اور اداروں کی نیک نامی ہوئی، جو اسے اپنی سیاست کے لیے استعمال کرتے رہے۔اس سے عدلیہ کی ساکھ پر جس قدر کیچڑ اُچھلا، وہ کسی بھی مُلک و قوم کے لیے تکلیف دہ ہے اور شرم ناک بھی۔ کبھی’’ نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت آمروں کو دس، دس سال عوام پر مسلّط کرنا، تو کبھی منتخب حکُم رانوں کو دبائو اور حیلے بہانوں سے اُتار پھینکنا، کبھی لاڈلوں کو ریلیف پر ریلیف دینا ،ہم خیال بینچز کا رواج عام کرنا یا پھر انتظامیہ کو بے بس اور بے جا دخل اندازی کرنے سے مُلک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنا، سیاست تلپٹ ہوکر رہ گئی، حکومتیں بے بس اور ترقّی عوام کا خواب بن گئی۔
گورنینس منجمد ہوئی کہ انتظامیہ ہر وقت عدالت میں کھڑی سیاسی فیصلوں کا انتظار ہی کرتی رہتی ہے۔جمہوری ممالک میں عدلیہ نے ہمیشہ خود کو سیاست سے دُور رکھا،پارلیمان کو سپریم جانا اور انتظامیہ کو کام کرنے دیا۔یہ نہیں کہ کوئی بھی پارٹی فیورٹ بن کر ہر وقت وکلاء کی فوج کے ساتھ عدالت میں کھڑی رہے۔ اپنے حق میں فیصلے آئیں، تو واہ، واہ مخالف فیصلوں پر تنقید کی بھرمار۔ اب وقت آگیا ہے کہ عدلیہ اور سیاست کو گڈ مڈ کرنے کا کھیل بند کیا جائے، ہر ایک اپنا کام کرے۔
وکلاء سیاست میں ضرور حصّہ لیں، لیکن ایک سیاسی ورکر کے طور پر۔اُنہیں آئین اور قانوں کا کسٹوڈین نہیں بننا چاہیے، اس کام کے لیے منتخب پارلیمان موجود ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ سب اپنی اپنی غلطیاں تسلیم کرلیں اور آگے بڑھیں۔ انتخابات میں عوامی امنگوں کو ہی اہمیت دینی چاہیے، نہ کہ کسی نئے محاذ کی شروعات ہو، جو پھر آگے کی راہیں اندھیر کردے۔