• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتیں کسی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ سیکٹر سب سے زیادہ ملازمتیں فراہم کرتا ہے۔ چین، کوریا، بھارت، بنگلہ دیش اور ویت نام نے SMEs کی گروتھ سے ترقی حاصل کی۔ ایس ایم ایز کی 2007ءکی قومی پالیسی کے مطابق ایسی کمپنی جس میں زیادہ سے زیادہ 250 ورکرز کام کرتے ہوں، کمپنی میں سرمایہ کاری 25ملین روپے اور سالانہ سیلز 250ملین روپے ہو، ایس ایم ایز کہلاتی ہے۔ پاکستان میں تقریباً 5.2 ملین SMEs ہیں جس کا ملک کی ملازمتوں میں 30فیصد اور ملکی جی ڈی پی میں 40 فیصد حصہ ہے جبکہ صنعتی ترقی یافتہ ممالک چین میں SMEs کا حصہ 99فیصد، ملائیشیا میں 90 فیصد اور بھارت میں 80فیصد ہے۔ پاکستان میں SMEs کی عملی مثال آٹو وینڈر انڈسٹری ہے جو ٹویوٹا، ہنڈا، سوزوکی اور دیگر کار مینوفیکچررز کے معیار کے مطابق پرزہ جات تیار کرتی ہیں۔ ہمیں آٹو سیکٹر کے علاوہ ٹیکسٹائل اور دیگر سیکٹرز میں بھی وینڈر انڈسٹریز کو فروغ دینا ہوگا۔ایف پی سی سی آئی نے ٹیکسٹائل گارمنٹس، فروٹ اور ویجی ٹیبل،آئی ٹی، سرجیکل گڈز، پرنٹنگ اینڈ پیکیجنگ، کھجور پروسیسنگ، جیمز اینڈ جیولری اور فرنیچر سیکٹرز ایس ایم ایز کیلئے وزارت صنعت و پیداوار کو تجویز کئے تھے۔

پاکستان میں قومی ایس ایم ایز پالیسی 2021میں ایس ایم ایز کی سالانہ گروتھ 10 فیصد، نئی ملازمتیں 5 فیصد اور ایکسپورٹ گروتھ کا ہدف 10فیصد رکھا گیا تھا لیکن ایس ایم ایز سیکٹر کو بینکوں کی مطلوبہ فنانسنگ نہ ملنے، ٹیکس کے مشکل نظام، قدیم ٹیکنالوجی اور فنی مہارت کی سہولتیں دستیاب نہ ہونے کے باعث قومی پالیسی کے اہداف حاصل نہ ہوسکے۔ پاکستان میں ایس ایم ایز کی گروتھ میں حائل رکاوٹوں میں سب سے بڑی رکاوٹ بینکوں کا چھوٹی فیکٹریوں کو گروی رکھے بغیر قرضہ نہ دینا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے بینکوں کی ایس ایم ایز آسان فنانسنگ اسکیم متعارف کراتے ہوئے ملک میں ایس ایم ایز فنانسنگ کو بڑھا کر 17فیصد ہدف رکھا ہے جس کیلئے بینکوں کو کیش فلو کی بنیاد پر قرضے دینا ہوں گے۔

اس اسکیم کے تحت اسٹیٹ بینک نے ایس ایم ایز کیلئے 150ملین روپے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کیلئے 800ملین روپے قرضے کی حد رکھی ہے اور بینکوں کو ہر مہینے بھی ایس ایم ایز فنانسنگ کیلئے 100ملین روپے کا ہدف دیا گیا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں جھجک نہیں کہ ایس ایم ایز سیکٹر کے فروغ کیلئے 1998ءمیں قائم کئے گئے ادارے SMEDA اور SME بینک ایس ایم ایز کے فروغ میں ناکام رہے ہیں۔

پاکستان میں ایس ایم ایز سیکٹر کا فروغ نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ایس ایم ایز کو بینکوں سے مناسب شرح سود پر قرضوں کا نہ ملنا ہے۔ بینک تقریباً 30 فیصد شرح سود پر ایس ایم ایز کو فنانسنگ فراہم کررہے ہیں لیکن شرح سود ایس ایم ایز کیلئے ناقابل برداشت ہے۔ دو دہائی قبل اسٹیٹ بینک کے کارپوریٹ اور SMEs سیکٹرز کے بینکوں سے قرضے لینے کے قوانین (پروڈنشل ریگولیشن) ایک ہی تھے جس کے تحت SMEs کو بینکوں سے قرضہ لینے کیلئے اپنی فیکٹری، عمارت اور مشینوں کو بینکوں کو گروی رکھوانا پڑتا تھا لیکن چونکہ SMEs سیکٹر میں بیشتر فیکٹریاں کرائے پر ہوتی ہیں اسلئے مالکانہ حقوق نہ ہونے کے باعث اُنہیں بینکوں کو گروی نہیں رکھوایا جاسکتا، اس وجہ سے SMEs سیکٹرکابینکوں سے قرضہ لینا نہایت مشکل تھا۔ FPCCI کی بینکنگ کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے گورنر اسٹیٹ بینک سے مطالبہ کیا تھا کہ چھوٹے درجے کی صنعتوں کیلئے قرضوں کے علیحدہ نرم قوانین بنائے جائیں جس میں SMEs کو اثاثے گروی رکھ کر قرضے دینے کے بجائے کیش فلو کی بنیاد پر قرضے فراہم کئے جائیں۔ مجھے خوشی ہے کہ کئی سال کی جدوجہد کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک نے SMEs کے قرضوں کے علیحدہ قوانین منظور کئے جس کے تحت SMEs فزیبلٹی رپورٹ اور کیش فلو کی بنیاد پر اگر قرضہ واپس کرنے کی استطاعت رکھتا ہے تو بینک اُسے اثاثے گروی رکھوائے بغیر قرضہ دے سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے اب بھی بینک SMEs کو قرضہ دینے کیلئے فیکٹری اور اثاثوں کو گروی رکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کوچاہئے کہ ایگری کلچر فنانسنگ کی طرح ایس ایم ایز فنانسنگ کیلئے بھی بینکوں کو سالانہ اہداف دےتاکہ ایس ایم ایز فنانسنگ کی حوصلہ افزائی کی جاسکے۔ اس وقت بینکوں کی ایس ایم ایز کو فنانسنگ کم ہوکر صرف 6سے 7فیصد ہے جبکہ باقی فنانسنگ بڑے درجے کی صنعتوں اور حکومتی ٹریژری بلز میں کی جارہی ہے۔

چین کی صنعتی ترقی کا سہرا چینی رہنما ڈنگ زیائوپنگ کے سر جاتا ہے جنہوں نے حکومتی اداروں کے ایک بڑے حصے کو پرائیویٹ سیکٹر کے چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں میں تبدیل کیا۔ چینی حکومت نے کاٹیج انڈسٹری لگانے کیلئے 5 سال کیلئے آسان شرائط پر قرضے فراہم کئے اور اس عرصے میں ٹیکس اور قرض کی ادائیگی کی چھوٹ دی گئی جبکہ ایس ایم ایز کوبینکوں سے قرضے لینے کیلئے مختلف سیکٹرز میں کاروبار کی فزیبلٹی رپورٹس بھی فراہم کی گئیں۔ اس کے علاوہ بنائی گئی مصنوعات کو خرید کر بڑی مارکیٹوں میں پہنچانے کی ذمہ داری بھی چینی حکومت نے اپنے ذمہ لے لی جس کے نتیجے میں آج چین میں ایس ایم ایز (SMEs) اور اسپیشل اکنامک زونز (SEZs) دنیا کے کامیاب ماڈل کے طور پر اسٹڈی کئے جاتے ہیں، پاکستان کو بھی چین کے کامیاب ماڈلز سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔

تازہ ترین