خنسا سعید، سیال کوٹ
معصوم فاختہ کی طرح تیز دھڑکتے دل کے ساتھ بے قرار سی ماں اپنے نوزائیدہ بچّے کو اپنی بوسیدہ و خستہ حال چادر کے نیچے کبھی دائیں بغل میں چُھپاتی،تو کبھی بائیں بغل میں۔ جہاں وہ بیٹھی تھی، وہ شہر میں ملبے کا سب سے اونچا ڈھیر تھا۔ وہ وہاں بیٹھ کر نیچے خُون میں لتھڑے بچّوں کے لاشے اور ماؤں کی آہ و بکا دیکھ رہی تھی۔ بے بس و مجبور باپ کو درد سے کرلاتے دیکھ رہی تھی۔ ہر طرف خون تھا، چیخیں تھیں، لاشے تھے، انسانی اعضا اُس ملبے کے ڈھیر پر جا بجا بکھرے پڑے تھے۔
ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ آسمان پر تباہی مچانے بم بار طیّاروں کا ایک نیا دستہ آ نکلا اوراس نے مسمار شُدہ شہر پر دوبارہ بم باری شروع کر دی۔ بم باری کرتے طیّاروں کے کیپٹن کا ایک ہی اعلان گونج رہا تھا۔ وہ خوں خوار دستے سے مخاطب ہو کر کہہ رہا تھا کہ ’’ جوانو! ایک بھی انسان اور جانور کے بچّے کو زندہ نہ چھوڑنا۔ شہر میں بچ جانے والے آخری سلامت پتّھر کو بھی ٹکڑوں میں تقسیم کر دینا۔ اپنا مشن یوں ہی جاری رکھو۔‘‘
کیپٹن کا اعلان سن کر بم بار طیّاروں نے شہر پر وحشیانہ بم باری شروع کر دی اور ملبے کے ڈھیر پر بیٹھی ماں وہیں ڈھیر ہو گئی۔ ابدی نیند سوتے وقت اس کی نظروں کے سامنے اپنے بچّے کے خُون میں لت پت ننّھے بُوٹ گھوم رہے تھے ، جب کہ بچّے کا بدن ہوا میں بکھر چُکا تھا ۔
بم بار طیّاروں کا خوں خوار دستہ آج جلدی میں تھا، کیوں کہ آج شام اُسے انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے عالمی سلامتی کائونسل میں مدعو کیا گیا تھا۔