• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کی معاشی اور سیاسی غیر یقینی صورتحال کے باعث گزشتہ سال پاکستانیوں کی ریکارڈ تعداد روزگار کی تلاش میں وطن چھوڑ کر بیرون ملک چلی گئی۔ بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 2023 ءمیں 8لاکھ 62 ہزار سے زائد پاکستانی روزگار کی غرض سے بیرون ملک گئے جو 2015 ءکے بعد پاکستانیوں کی بیرون ملک سب سے بڑی منتقلی ہے۔ واضح رہے کہ 2015 میں بھی ملک میں ایسی ہی غیر یقینی سیاسی اور معاشی صورتحال کے باعث 9 لاکھ 47ہزار سے زائد پاکستانی اپنا وطن چھوڑ گئے تھے۔ بیورو کی رپورٹ کے مطابق 2023میں ملک چھوڑ کر جانے والوں میں 3لاکھ 86 ہزار لیبر کے شعبے جبکہ تقریباً 5 لاکھ پاکستانیوں کا تعلق اسکلڈ کیٹگری سے تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ملک چھوڑنے والوں میں اپنے شعبے میں مہارت رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی شامل تھے جن میں 8500انجینئرز، 7500 اکائونٹینٹ، 3500ڈاکٹرز اور1600 ٹیچرز شامل تھے۔ بیرون ملک جانیوالے افراد میں ساڑھے 4 لاکھ سے زائد افراد سعودی عرب، 2 لاکھ 30 ہزار افراد متحدہ عرب امارات، 56 ہزار افراد قطر، 80 ہزار افراد عمان اور دیگر خلیجی ممالک جبکہ 21ہزار افراد ملائیشیا، 5 ہزار افراد رومانیہ، 4500 افراد عراق اور 3 ہزار افراد یونان منتقل ہوئے۔ یہ وہ پاکستانی تھے جنہوں نے قانونی طریقے سے خود کو بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ میں رجسٹرکروایا جبکہ غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے افراد کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔

ملک میں پھیلی غیر یقینی صورتحال کے باعث گزشتہ سال پاکستان کے امیر اور اشرافیہ طبقے نے بھی بڑی تعداد میں اپنی جائیدادیں اور اثاثے فروخت کرکے دنیا کے دیگر ممالک کی شہریت اور سکونت اختیار کی اور اربوں ڈالر کا زرمبادلہ ان ممالک میں منتقل ہوا۔ اس طرح پاکستان برین ڈرین کے ساتھ کیپٹل ڈرین کا بھی شکار ہوا۔ پاکستانیوں کے بیرون ملک سکونت اختیار کرنے والے ممالک میں ترکی، یو اے ای، کینیڈا اور کچھ یورپی ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک میں ترکی سرفہرست ہے جس نے دنیا بھرکی اشرافیہ اور صاحبِ حیثیت افراد کیلئے اپنے ملک کے دروازے کھول رکھے ہیں جہاں کچھ سال قبل تک رئیل اسٹیٹ میں 2لاکھ 50 ہزار ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے سکونت اور کچھ ہی عرصے میں ترکش شہریت حاصل کی جاسکتی تھی جس سے ہزاروں پاکستانیوں نے بھی فائدہ اٹھایا تاہم اب اس اسکیم کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ترکش حکومت نے 2 لاکھ 50 ہزار ڈالر کی حد بڑھاکر 4لاکھ ڈالر کردی ہے لیکن اس کے باوجود شہریت کے حصول کی غرض سے ترکی میں سرمایہ کاری کرنے والوںمیں کوئی کمی نہیں آئی اور ایک اندازے کے مطابق پاکستانیوں کی بڑی تعداد ترکی کے رئیل اسٹیٹ شعبے میں سرمایہ کاری کرکے اس اسکیم سے فائدہ اٹھارہی ہے۔ ترکی کے علاوہ ڈومینیکن ری پبلک ایک لاکھ ڈالر، مونٹی نیگرو 2 لاکھ 50 ہزار ڈالر، پرتگال 3 لاکھ 50 ہزار ڈالر، امریکہ 8 لاکھ ڈالر، مالٹا 10 لاکھ ڈالر اور برطانیہ نے 25 لاکھ ڈالر کے عوض شہریت کیلئے خصوصی اسکیمیں متعارف کرائی ہیں جن کے بارے میں پاکستان کے میڈیا اور سوشل میڈیا پر تشہیر عروج پر ہے۔

میں اپنے ایسے کئی دوستوں کو جانتا ہوں جو اِن اسکیموں سے مستفید ہوکر اپنی فیملی سمیت ان ممالک میں سیٹل ہوچکے ہیں۔ ایسی صورتحال میں یو اے ای حکومت بھی کسی سے پیچھے نہیں جس نے دنیا بھر کے طبقہ اشرافیہ کو راغب کرنے کیلئے نئی اسکیمیں متعارف کرائی ہیں جن کے تحت اگر آپ 2 ملین درہم یا 5.5 لاکھ ڈالر 2 سال کیلئے یو اے ای کے کسی بینک میں فکس ڈپازٹ کروادیتے ہیں تو یو اے ای کا گولڈن ویزا حاصل کرکے 10سال کیلئے اپنی فیملی اور ملازمین کے ساتھ یو اے ای میں رہائش اختیار کرسکتے ہیں جو قابل تجدید بھی ہے۔ یو اے ای کی ایک اور اسکیم کے تحت اگر آپ یو اے ای میں پراپرٹی میں 2 ملین درہم یا 5.5 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کرتے ہیں تو یو اے ای کا 5 سالہ گولڈن ویزا حاصل کرسکتے ہیں۔ ان دونوں اسکیموں سے دنیا بھر کی اشرافیہ اور امرا نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے جن میں ہزاروں پاکستانی بھی شامل ہیں جو اسکیم سے مستفید ہوکر فیملی سمیت یو اے ای منتقل ہوچکے ہیں۔

کیپٹل اور برین ڈرین ایک سنجیدہ مسئلہ ہے مگر افسوس کہ حالیہ انتخابات میں کسی بھی جماعت نے اپنے منشور میں اس اہم مسئلے کو شامل نہیں کیا۔ اب جبکہ الیکشن کے بعد نئی حکومت اقتدار سنبھالے گی، امید کی جارہی ہے کہ آنے والی حکومت اس اہم مسئلے پر توجہ دے گی اور ایسے اقدامات کرے گی جس سے پاکستانی سرمایہ کاروں اور بزنس مینوں کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ ہنر مند نوجوانوں کا اعتماد بحال ہو اور وہ غیر ملکی شہریت کے حصول، بہتر مستقبل اور روزگار کی خاطر ملک چھوڑنے اور اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے کے بجائے پاکستان میں ہی سرمایہ کاری اور رہائش کو ترجیح دیں۔ اگر حکومت نے اس اہم مسئلے پر توجہ نہ دی اور خاموش تماشائی بنی رہی تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کی اشرافیہ اور امیر طبقے کے علاوہ تعلیم یافتہ افراد کسی دوسرے ملک منتقل ہوکر اُس ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہوں گے جبکہ پاکستان برین اور کیپٹل ڈرین ہونے کے باعث ترقی کی دوڑ میں خطے کے دیگر ممالک سے بہت پیچھے رہ جائے گا۔

تازہ ترین