ترجمان پاکستان پیپلز پارٹی فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن پی ڈی ایم کے سربراہ تھے عدم اعتماد سے منع کر دیتے، عدم اعتماد کا سب سے بڑا فائدہ مولانا فضل الرحمٰن کو ملا۔
فیصل کریم کنڈی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم میں چار وزارتیں، ڈپٹی اسپیکر شپ جے یو آئی کو ملی، ان وزارتوں میں مولانا نےڈیرہ اسماعیل خان سے سیاسی سفر شروع کیا، مولانا اس سیاسی سفر میں اسلام آباد سے پھر ترکیے پہنچے، نگراں حکومت میں وزارتیں ملیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ سارے مزے لوٹنے کے بعد خیال آیا کہ ان سے زیادتی ہوئی، مولانا صاحب سیاسی طور پر چلے ہوئے کارتوس بن چکے ہیں، سیاست میں مولانا آ نہیں رہے اب سیاست سے جارہے ہیں، مولانا کے بھائی کہہ رہے تھے کہ ہم سی ایم اور مولانا صدر ہیں، ہماری بات ہوچکی ہے، مولانا کے بھائی کہہ رہے تھے کہ ہمارے لیے کمپین اور لوگ بھی کر رہے ہیں۔
رہنما پیپلز پارٹی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن سے متعلق پی ٹی آئی نے کیا کیا باتیں کیں، آج اگر پیپلزپارٹی یا ن لیگ نے یہ کیا ہوتا تو کلپ چلائے جاتے کہ ماضی میں یہ کیا اور یہ کہا، پیمرا سے درخواست ہے کہ پابندی ہٹائیں تاکہ ہم دیکھ سکیں کے بانی پی ٹی آئی مولانا سے متعلق ماضی میں کیا کہتے تھے۔
فیصل کریم کنڈی کا مزید کہنا تھا کہ آج جے یو آئی اور تحریک انصاف والے اکٹھے ہوئے اچھی بات ہے، اب دیکھتے ہیں کہ کیا پی ٹی آئی کے دوست مولانا آ رہا ہے پر بھنگڑے ڈالیں گے، اب دیکھتے ہیں کہ کیا جے یو آئی کے کارکن نک دے کو کے پر بھنگڑے ڈالیں گے۔
فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن پی ڈی ایم کے صدر تھے، ان کے لوگوں نے جس طرح کرپشن کی صلہ ان کو کے پی میں مل گیا، بانی پی ٹی آئی ہماری منتیں کر رہا تھا کہ الیکشن کروانے کو تیار ہیں، جس طرح سے عدم اعتماد کا ووٹ لیا گیا سب کو معلوم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مولانا نے فیض حمید کی بات کی وہ اس وقت کورکمانڈر پشاور تھے ان کا کردار نہیں تھا۔
فیصل کنڈی نے کہا ہے کہ علی امین کے بیانات ہیں کہ ہمارے لوگوں کے ہاتھ مروڑ کر مولانا کے پاس شامل کرایا جا رہا ہے، ابھی بہت ساری چیزیں سیاست میں دیکھنے کو ملیں گی، الیکشن یہ کے پی میں ہارے ہیں اور چیخ سندھ میں رہے ہیں، سندھ میں ایسے چیخ رہے ہیں جیسے پہلے یہاں بہت حکومتیں بنائی ہوں، جے یو آئی کے سندھ میں امیدوار ایک لاکھ ووٹ سے ہارے ہیں، ایک لاکھ ووٹ سے ہارنے کے بعد بھی سمجھتے ہیں کہ غیبی امداد آئے، ایک الیکشن کے بعد یہ کہتے ہیں کہ شاید ہم اسلحہ اٹھالیں۔
انہوں نے کہا کہ نو مئی کے ملزمان کو وزیراعظم یا چیف منسٹر بنالیں تو کیا وہ سارا کچھ معاف ہو جائے گا، ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ مسلم لیگ ن کو سپورٹ کرتے ہیں، ہم اپوزیشن میں بیٹھتے تو یہ ملک ایک اور الیکشن کی طرف جاتا۔
فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ چیئرمین سینیٹ، اسپیکر کے لیے پی پی پی حصہ لے گی، ہم پارلیمنٹ میں رہ کر تنقید برائے اصلاح کریں گے، کچھ جماعتیں زمین گرم کرنے کی باتیں کرتی ہیں۔
اُن کا الیکشن سے متعلق بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ خدا کے لیے اس قوم کبھی صاف شفاف الیکشن بھی دے دیا کریں، آج تک رزلٹ آ رہے ہیں یہ چیزیں سب کے سامنے ہیں۔
’تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ ملک کو آگے لے کر چلیں‘
دوسری جانب پی پی رہنما ندیم افضل چن نے پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک دوسرے کو غلط القابات سے نوازنے والے اکھٹے ہو رہے ہیں، اپنے مفاد کے لیے اکھٹے ہو بھی جاتے ہیں تو سیاست میں مذہب کارڈ کا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ الیکشن میں ڈکیتی ہوئی ہم جمہوری طریقہ اپنا رہے ہیں، دوسری طرف راستے بلاک کیے جارہے ہیں بلوچستان بند ہے، بندر بانٹ سے جمہوریت کا نقصان ہوگا، سلیکشن ہوگی تو استحکام نہیں آسکتا، تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ ملک کو آگے لے کر چلیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ کوئی بندوق اٹھانے کی بات کرتے ہیں، خدا کے لیے قوم پر رحم کریں۔
قمر زمان کائرہ کا ردِ عمل:
پی پی رہنما قمر زمان کائرہ نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جب بانی پی ٹی آئی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں اجلاس ہوتے تھے تو صدارت خود مولانا فضل الرحمٰن کرتے تھے، ناراضیوں کے بعد کی گفتگو کے اور معنی ہوتے ہیں۔