• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ روز جنرل (ر) فیض کا نام غلطی سے میری زبان پر آگیا، مولانا فضل الرحمان

جمعیت علما اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز جنرل (ر) فیض حمید کا نام غلطی سے میری زبان پر آگیا۔

ایک انٹرویو میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جنرل(ر) باجوہ، ریٹائرڈ جنرل  فیض کو 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔

فضل الرحمان نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے کو زیادہ زیر بحث لانے کی بجائے تاریخ کے حوالے کیا جائے، میں نے ساری بات بتا دی ہے، اتنا کافی ہے، ہم پی ٹی آئی حکومت کو تحریک کے ذریعے ہٹانا چاہتے تھے، پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی، اے این پی کی روزانہ میٹنگیں ہوتی رہتی تھی، مجھ سے اکیلے میں جنرل باجوہ کی بہت ملاقاتیں ہوئی ہیں۔

سربراہ جے یو آئی نے یہ بھی کہا کہ کے پی سمیت کہیں بھی شفاف انتخابات نہیں ہوئے، اختلافات کے باوجود پی ٹی آئی کا وفد ملاقات کرکے گیا، پی ٹی آئی وفد نے مثبت بات کہہ دی ہے، وفد سے کہا آپ کی مہربانی آپ آئے ہیں لیکن دھاندلی ضرور ہوئی ہے، ان سے کہا آپ کہتے ہیں دھاندلی ہوئی ہے، ہم کہتے ہیں دھاندلی آپ کے لیے ہوئی ہے۔

 فضل الرحمان نے یہ بھی کہا کہ پی ٹی آئی وفد سے خوشگوار انداز میں بات ہوئی، معاملات کیسے طے ہوں گے، آگے دیکھتے ہیں کیا صورتحال ہوتی ہے، مذاکرات آگے چلتے ہیں اور تحلیل ہوجاتے ہیں تو کوئی بری بات نہیں، مجھ سے اکیلے میں جنرل باجوہ کی بہت ملاقاتیں ہوئی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ذاتی ناراضگی کو مقاصد پر ترجیح نہیں دوں گا، اختلاف ختم ہوجاتے ہیں تو عفو و درگزر سے کام لیں گے، اختلافات اپنی جگہ موجود ہیں، ذاتی نہیں، پارٹی کی سطح پر ہیں، میرا کارکن سوچتا ہے فضل الرحمان کا نام لے کر گالی دی گئی ہے تو مجھے دی گئی ہے، یہ احساسات ہر سطح پر موجود ہیں، ہمیں ان کو بھی سامنے رکھنا ہے۔

 یاد رہے کہ گزشتہ روز نجی ٹی وی  کو انٹرویو کے دوران  مولانا فضل الرحمان نے انکشاف کیا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد قمر جاوید باجوہ کے کہنے پر لائے۔ تحریک عدم اعتماد کے وقت قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید رابطے میں تھے۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ  میں عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھا، عدم اعتماد کی تحریک پیپلزپارٹی چلا رہی تھی، چاہتا تھا تحریک کے ذریعے اس وقت کی حکومت ہٹائی جائے، فیض حمید میرے پاس آئے اور کہا جو کرنا ہے سسٹم کے اندر رہ کر کریں، سسٹم میں رہ کر کرنے کا مطلب اسمبلیوں میں رہ کر کرنا ہے، میں نے انکار کر دیا تھا۔

قومی خبریں سے مزید