• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین عام انتخابات 2024کا مرحلہ مکمل ہوچکا۔اب 21روز کے اندر ملک کی 16ویں قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے گا۔نگران وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر قومی اسمبلی کا اجلاس بلائیں گے۔ذرائع کے مطابق عام انتخابات کے بعد 10روز کے اندر تمام کامیاب ممبران الیکشن کمیشن میں انتخابی اخراجات کی تفصیلات جمع کرائیں گے۔ پھر 14روز کے اندر الیکشن کمیشن ہر حال میں نوٹیفکیشن جاری کرے گا جس کے بعد آزاد حیثیت سے جیتنے والے ممبران کیلئےلازمی ہو گا کہ 3روز کے اندر اندر یہ کسی بھی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے یا اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھنے کے پابند ہوں گے تاکہ خواتین اور نان مسلم سیٹوں کی گنتی کی جا سکے۔ 8فروری کے انتخابات کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ جتنا زیادہ مشکل دکھائی دے رہا تھا اتنا ہی زیادہ آسان ثابت ہوا ہے۔ تحریک انصاف کے بعد بڑی پارٹیوں کی طرف سے بہتر جمہوری رویئے سامنے آئے۔ اگر یہ دونوں پارٹیاں اتحاد نہ کرتیں تو معاملات دوبارہ انتخابات کی طرف جا سکتے تھے۔ بلاول کی طرف سے پریس کانفرنس میں جہاں وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے عہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا گیا وہیں انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ انکی پارٹی مسلم لیگ کو سپورٹ کرے گی لیکن وزارتیں نہیں لے گی۔ تاہم بعد میں آصف علی زرداری کی طرف سے حکومت کا حصہ بننے کا اعلان کیا گیا۔ اس پریس کانفرنس میں بلاول بھٹو زرداری کا کچھ آئینی عہدوں کا تقاضا معنی خیز تھا۔ انہوں نے آصف علی زرداری کیلئے صدارت اور پیپلز پارٹی کیلئے سپیکر اور چیئرمین سینٹ کے عہدوں کی خواہش کا اظہار کیا۔ پنجاب اور سندھ کی گورنری کا مطالبہ بھی ان کی طرف سے سامنے آ سکتا ہے۔ یہ آئینی عہدے ایک پارٹی کے پاس آ جاتے ہیں تو پاکستان کی مروجہ سیاست کے پیش نظر جمہوریت ایک پارٹی کے رحم و کرم پر ہوگی۔چونکہ 8 فروری کے انتخابات میں کسی پارٹی کو واضح مینڈیٹ نہیں ملا چنانچہ کوئی بھی ایک پارٹی دوسری پارٹی یا پارٹیوں کو شامل کئے بغیر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ حقائق یہ ہیں کہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی 266نشستوں میں سے92 آزاد امیدواروں نے جیتی ہیں۔ مسلم لیگ ن 79جبکہ پیپلز پارٹی کو 54نشستیں ملی ہیں۔ہر پارٹی کو سوائے تحریک انصاف کے خصوصی نشستیں اس کی حاصل کردہ نشستوں کے تناسب سے ملیں گی۔

یہ پہلا موقع ہے کہ تمام جماعتوں نے علاوہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے، جو پہلے دن ہار رہی تھیں۔ رات کو تمام میڈیا بتا رہا تھا کہ نوجوانوں نے پی ٹی آئی کو اکثریت سے کامیابی دلائی اور اسی طرح جماعت اسلامی بھی جورات تک جیت رہی تھی صبح ہوتے ہی آسمانی مخلوق نے پورا نقشہ بدل دیا۔ کل تک مسلم لیگ (ن) ہار چکی تھی اچانک جیتنا شروع ہوئی نقشہ بدل گیا اورجو بڑے بڑے برج الٹ چکے تھے، ان کو کامیابی دلا دی گئی اورہارے ہوئے لوگ جیتنا شروع ہو گئے۔ یہاں تک کہ پہلی مرتبہ جے یو آئی (ف)کے مولانا فضل الرحمن اور ان کے لوگوں نے بھی اس ہار کو محسوس کیا جو مصنوعی طور پر دلائی گئی ہے۔ احتجاج کیا اور پہلی مرتبہ اپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان کر دیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس مصنوعی جیت کو ملک کی سیاست پر مسلط کرنے کے کیا نتائج نکلیں گے۔

عام انتخابات کے نتیجے میں 19نئے چہرے بھی قومی اسمبلی میں کامیاب ہوئے ہیں۔ قومی اسمبلی کی نشستوں پر سب سے زیادہ نئے چہرے خیبر پختونخوا سے کامیاب ہوئے ہیں۔ ان سب کو پاکستان تحریک انصاف کی حمایت حاصل تھی۔ اس کے علاوہ پنجاب اور بلوچستان سے بھی کچھ امیدوار پہلی بار قومی اسمبلی کا الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ جن میں گوہر علی خان، ڈاکٹر امجد خان، شیر افضل، نسیم علی شاہ، شہرام ترکئی، عاطف خان، احد شاہ، سہیل سلطان، محمد آصف خان، حمید حسین، یوسف خان، راجہ اسامہ سرور، بیرسٹر دانیال چوہدری، بیرسٹر عقیل ملک، سردار لطیف کھوسہ، عادل خان بازئی، نوابزادہ میر جمال خان رئیسانی، خوشحال خان، میاں خان بگٹی شامل ہیں۔ جبکہ ان عام انتخابات میں بڑے بڑے برج الٹ گئے جن میں رانا ثناء اللہ، سعد رفیق، ایمل ولی، شیخ رشید، امیر حیدر ہوتی، سرور خان، چوہدری نثار علی خان، جاوید لطیف، محمود خان اور شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہر بانو کو حالیہ الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو کو بھی قومی اسمبلی کی ایک، ایک نشست پر شکست ہوئی۔ تفصیلات کے مطابق جے یو آئی (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اپنے آبائی حلقے ڈیرہ اسماعیل سے ہار گئے۔ حلقہ این اے 44ڈی آئی خان سے ان کے مد مقابل علی امین گنڈا پور کو فتح ہوئی۔ ن لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق حلقہ این اے 122سے ہار گئے اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سردار لطیف کھوسہ جیت گئے۔ گجرات میں پی ٹی آئی کے مرکزی صدر چوہدری پرویز الہٰی کو سالک حسین کے ہاتھوں شکست کا سامان کرنا پڑا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے ایمل ولی خان کو چار سدہ سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے25سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اے این پی کے مرکزی سینئر نائب صدر حید رخان ہوتی کو مردان سے این اے 22سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ نیز نگراں حکومت نے جاتے جاتے عوام پر ایک مرتبہ پھر گیس اور پیٹرول بم گرادیا اور آئی ایم ایف کی شرائط پر گیس مزید مہنگی کرنے کی منظوری دے دی۔

تازہ ترین