اسلام آباد ہائی کورٹ میں اسلام آباد کے 2 حلقوں کے انتخابی نتائج کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جاری ہے۔
جسٹس گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ارباب محمد طاہر سماعت کر رہے ہیں۔
درخواست گزار شعیب شاہین نے کہا ہے کہ ہمیں تقریباً 380 فارم 45 اسی رات مل گئے تھے، میرا ووٹ طارق فضل کو جبکہ طارق فضل کا ووٹ مجھے ڈال رہے تھے، میں نے ریٹرننگ افسر سے کہا کہ اگر غلطی ہے تو اسے درست کر لیں، ریٹرننگ افسر نے مجھے کہا کہ یہاں سے چلے جاؤ ورنہ نکال دیں گے، رات ایک بجے تک فارم 45 جاری نہیں کیا جا رہا تھا توہم نے دھرنا دے دیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سوال کیا کہ کیا فارم 45 پر ریٹرننگ افسر کے دستخط موجود ہیں؟
شعیب شاہین نے بتایا کہ جی، فارم 45 پر ریٹرننگ افسر کے دستخط موجود ہیں، ہم نے پہلے ریٹرننگ افسر اور پھر ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کو درخواست دی، الیکشن کمیشن نے آر او کو حتمی کانسالیڈیشن سے روکنے کا حکم دیا، الیکشن کمیشن نے آر او سے 3 دن میں رپورٹ مانگی لیکن ابھی تک نہیں دی گئی۔
درخواست گزار شعیب شاہین نے کہا کہ ہمارے اصرار پر ریٹرننگ افسر نے ہمیں کانسالیڈیشن نہ ہونے کا لکھ کر دیا، بعد میں پتہ لگا آر او آفس میں طارق فضل کی موجودگی میں ٹیمپرنگ ہو رہی ہے، ہم وہاں پہنچے تو اندر داخل نہیں ہونے دیا گیا، ہم نے الیکشن کمیشن کو درخواست دی، الیکشن کمیشن نے کانسالیڈیشن کے بغیر ہی نوٹیفکیشن جاری کردیا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہماری استدعا تسلیم کرتے ہوئے دوبارہ پراسس کا حکم دیا، الیکشن کمیشن نے سلمان اکرم راجہ کے حلقے کے کامیاب امیدوار کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا، ہمارے حلقوں کے کامیاب امیدواروں کے نوٹیفکیشنز واپس نہیں لیے گئے۔