• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عام انتخابات ہو چکے ہیں، آج آٹھ دس دنوں بعد ہمارے پیارے بودی سرکار تشریف لائے، میں نے حسب سابق ان کے مزاج میں وہی گرمی اور غصہ دیکھا، آج تو انہوں نے بیٹھنے سے قبل ہی تقریر شروع کر دی، کہنے لگے کہ "یہ کوئی الیکشن ہوا ہے، یہ تو الیکشن کے نام پر مذاق کیا گیا ہے، یونہی قوم کا ستر ارب روپیہ ضائع کر دیا گیا ہے، ہر طرف دھاندلی کا شور مچا ہوا ہے، پورے بلوچستان صوبے کے تقریباً ہر ضلعے میں دھاندلی کا شور بلند ہوا ہے بلکہ سردار اختر مینگل اور محمود خان اچکزئی نے تو بہت سنگین الزامات عائد کئے ہیں، ان الزامات کا جواب دینا الیکشن کمیشن کے لئے بڑا ضروری بن گیا ہے ورنہ لوگ ان الزامات کو حقیقت سمجھنا شروع کر دیں گے۔ اسی طرح صوبہ سندھ میں الیکشن کے حوالے سے پیر صاحب پگارا، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، سائرہ بانو، جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمٰن، مولانا راشد محمود سومرو، پی ٹی آئی کے خرم شیر زمان، لیاقت جتوئی اور دیگر کے تحفظات ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ شہری سندھ کے علاوہ دیہی سندھ بھی دھاندلی کا رونا رو رہا ہے۔ سندھ میں پچھلے دنوں دھاندلی پر بھرپور احتجاج کر کے جی ڈی اے نے بھرپور عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اسی طرح جے یو آئی ف، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی نے احتجاج کیا۔ پورے پنجاب میں دھاندلی کے مناظر بکھرے پڑے ہیں۔ اسلام آباد کے حوالے سے جماعت اسلامی کے رہنما میاں محمد اسلم اور آزاد امیدوار مصطفیٰ نواز کھوکھر نے دھاندلی کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے۔ وفاقی دارالحکومت اور صوبہ پنجاب سے ہروائے گئے امیدوار فارم 45 لئے پھر رہے ہیں مگر الیکشن کمیشن کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ ملک کے سینئر سیاستدان مولانا فضل الرحمٰن نے جہاں دھاندلی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے وہیں لگے ہاتھوں رجیم چینج آپریشن کو بھی بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے۔ سیاسی پارٹیاں اور میڈیا تو آوازیں بلند کر ہی رہے تھے مگر اس الیکشن پر سب سے بڑا بم راولپنڈی کے کمشنر لیاقت علی چٹھہ نے گرایا ہے۔ انہوں نے خود کو مجرم گردانتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس کا نام بھی لیا ہے۔ حیرت ہے کہ اس معاملے کی تحقیق الیکشن کمیشن کی ایک خصوصی کمیٹی کر رہی ہے، میں نے حیرت کا اظہار اس لئے کیا ہے کہ لیاقت علی چٹھہ نے الیکشن کمیشن پر الزامات عائد کئے ہیں، اب الیکشن کمیشن کی خصوصی کمیٹی کیسے انصاف کر سکتی ہے؟ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے لئے موجودہ الیکشن نے بہت سے سوالات کھڑے کر دیئے ہیں، ان سوالات کا جواب عدلیہ کے ذریعے ہی آ سکتا ہے، خاص طور پر محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمٰن نے تو الیکشن نتائج کے حوالے سے پیسوں کے لین دین کا تذکرہ بھی کیا ہے، اس سنگین معاملے پر بھی عدالت کو دیکھنا چاہئے۔ پنجاب میں پتہ نہیں لیاقت چٹھہ جیسے اور کتنے افسران سامنے آئیں گے، سنا ہے کہ کچھ اور لوگوں کے ضمیر جاگنے والے ہیں۔ بیلٹ پیپرز سرکاری حفاظت میں پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان چھاپتا ہے، وہ بیلٹ پیپرز الیکشن سے آٹھ دس دنوں بعد لاہور کے ایک پرائیویٹ پریس میں کس طرح چھاپے جا رہے ہیں، پرائیویٹ پریس والوں کے خلاف قانونی کارروائی تو ہو گی مگر پرنٹنگ پریس آف پاکستان اور الیکشن کمیشن کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے کہ کس طرح بیلٹ پیپرز کی کاپی اور پلیٹس حاصل کی گئیں۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ انٹرنیشنل میڈیا نے کس طرح الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کو بے نقاب کیا۔ اب اس دھاندلی کے کئی نمونے ویڈیو کلپس کی صورت میں سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سوالوں کے جواب کون دے گا ؟ لہٰذا پاکستانی عدلیہ کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے لئے عدالتوں کے دروازے کھولے، لوگوں کو سنے اور قانون و انصاف کے مطابق فیصلے کرے، اگر ایسا نہ ہوا تو پھر ملک گیر احتجاج شروع ہو سکتا ہے۔ جس طرح کوشش ہو رہی ہے کہ غیر مقبول حکومت بنائی جائے اگر ایسا کر بھی لیا تو حالات نہیں سدھریں گے بلکہ احتجاج کرنے والے جیت جائیں گے کیونکہ غیر مقبول لوگوں کی حکومت ریت کی دیوار کی مانند ہوتی ہے۔ اگلی حکومت کو مہنگائی کے ساتھ معاشی مشکلات کا سامنا ہو گا"۔ کہ بقول نوشی گیلانی

وہ بات بات میں اتنا بدلتا جاتا ہے

کہ جس طرح کوئی لہجہ بدلتا جاتا ہے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین