• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی زمانے میں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں بڑے کمال کی فلمیں بنائی جاتی تھیں۔ حالانکہ یہ کم بجٹ کی فلمیں تھیں لیکن اپنی کہانی ، موسیقی ، اداکاری اور ہدایت کاری کے اعلیٰ معیار کے لحاظ سے وہ اس وقت کی ہندوستانی فلموں کے مقابلے میں شاندار کامیابی حاصل کرتی تھیں۔ اسی زمانے میں دوپٹہ ، انتظار اور کرتار سنگھ جیسی فلموں نے ہندوستان میں بھی کامیابی کے ریکارڈ قائم کئے ۔ کیونکہ یہ ماردھاڑکی بجائے معاشرتی مسائل اور ان کے حل کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیتی تھی ۔ پھر پاکستان کی فلمی دنیا میں گنڈاسا کلچر آیا جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ جس میں محرومی کا انتقام لینے کیلئے ہوش کی بجائے جوش کا سبق دیا جانے لگا، تشدّد ، مار دھاڑ اور قتل و غارت گری سے بھرپور یہ فلمیں نوجوانوں میں خاصی مقبول ہونے لگیں ۔ کیونکہ انہیں یہ سبق دیا گیا کہ جو کچھ وہ حاصل کرنا چاہتے وہ صرف طاقت سے ہی ممکن ہے۔ احمد ندیم قاسمی کے افسانے ’’ گنڈاسا‘‘ سے منسوب فلم ’’ وحشی جٹ‘‘ نے سلطان راہی کے ہاتھ میں ایسا گنڈاسا تھمایا جو دو عشروں تک مخالفین کی گردنیں کاٹتا رہا۔ اور جب تھماتو پتہ چلا کہ جن مسائل کے حل کیلئے یہ گنڈاسا بے دریغ چلتا رہا ہے۔ وہ تو پہلے سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایک پوری نسل نفرت، تنگ نظری ، انتہا پسندی اور تقسیم در تقسیم کا شکار ہو چکی ہے۔ صرف یہی نہیں اس گنڈاسے نے فلمی صنعت کو بھی تباہ کر دیا اور اسٹوڈیو ویران ہوگئے۔ ایسا ہی کچھ حال پاکستان کی سیاست میں عمران خان کی انٹری کے بعد ہمارے ملک کا ہو گیا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی سیاست میں غیر سیاسی قوتوں کے عمل دخل کیوجہ سے مہذّب جمہوری کلچر پیدا نہیں ہو سکا تھا۔ لیکن کسی نہ کسی حد تک سنجیدگی کے آثار پائے جاتے تھے۔ پاکستان کے مقتدر حلقوں کے زیرِ اثر جہاں نہ صرف ذہین اور قابل قیادت کا پاکستانی سیاست میں داخلہ روکا گیا بلکہ طرح طرح کے روبوٹ تخلیق کئے گئے۔ اور پھر جس نے سراُٹھایا اس کا سر قلم کر دیا گیا۔کھیل کے ایک لیجنڈری کھلاڑی کی حیثیت سے توبانی چیئرمین پی ٹی آئی پہلے بھی معروف تھا لیکن اپنی سیاسی قلابازیوں کی وجہ سے وہ 1996سے 2011تک کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہ کرسکا ۔ لیکن پھر ہماری اسٹیبلشمنٹ نے اسے گود لے لیا۔ اور نئی نسل کو یہ باور کرایا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ہی 1992کے ورلڈ کپ کے بعد شروع ہوئی ہے۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کا حصّہ ہے ،پروجیکٹ عمران کو چلانے والوںکی کوششوں سے 2018کے عام انتخابات میں اسے کامیاب تو کروالیاگیا مگر بعد میں جو حالات پیدا ہوئے ان سےثابت ہوا کہ وہ سیاسی لحاظ سے کتنا نا پختہ ہے۔ اگر کوئی سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا سیاستدان ہوتا اور اسے اسٹیبلشمنٹ کی اتنی حمایت حاصل ہوتی جس نے اسے یہ گارنٹی دے رکھی تھی کہ تمہارے سیاسی مخالفین سے ہم نمٹ لیں گے تم قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرو تو وہ شاید ادھر ادھر نہ دیکھتا لیکن وہ پونے چار سال کوئی قابل ِ ذکر کام کرنے کی بجائے اپنے گنڈاسے کو ہر طرف گھماتے رہے۔ سیاسی مخالفین ، صحافیوں ، عدلیہ اور دانشوروں سمیت کسی کو بخشا ہی نہیں۔ذوالفقار علی بھٹو شہید نے اپنے پہلے تین برسوں میں پاکستان کو دو آئین دئیے ایک عبوری اور دوسرا 73کا آئین ، بھارت سے شملہ معاہدے کے تحت 90 ہزار جنگی قیدی اور پانچ ہزار مربع میل رقبہ واپس لیا، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا۔ لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی ، طلبا اور مزدوروں کو یونین سازی کا حق دیا۔ اسی طرح نواز لیگ کے پاس بھی موٹر ویز اور بجلی کے کارخانے لگانے کا کریڈٹ ہے۔ لیکن کوئی یہ تو بتائے کہ عمران خان نے اپنے پونے چار سالہ دور میں انتشار پھیلانے کے سِوا کیا کام کیا ہے۔ نئی نسل کو گمراہ کرنے ، انہیں بہتان اور الزام تراشی کے نت نئے طریقے سکھانے کے سوِا کون سی تبدیلی لائے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ قرضے لینے ، آئی ایم ایف کی کڑی شرائط تسلیم کرنے ، ملک میں کرپشن میں 24درجے اضافہ کرنے اور پاکستان کے تمام روایتی حلیف ملکوں کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کے علاوہ ان کے نامہ اعمال میں ہے کیا؟ ۔ اس عمل کی وجہ سے انہوں نےاپنےوہ تمام ساتھی کھو دئیے جنہیں وہ ساتھ لے کرچلے تھے۔ یہی حال ان کی ذاتی زندگی کا رہا، سیاست میں رہتے ہوئے دوسرے سیاستدانوں سے ہاتھ ملانے سے گریز اں شخص کو کیا کہا جاسکتا ہے۔ کہتے ہیں بہادری اور حماقت میں صرف ایک ہلکی سی لکیر حائل ہوتی ہے نوجوان نسل کو تشدّد پر اکسانا اور انکی زندگی میں نفرت اور انتقام بھر دینا ، کسی دانشور یا حقیقی سیاستدان کا کام نہیں۔ عمران خان کا گنڈاسا جب ان قوتوں پر چلا جنہوں نے ا نہیں تخلیق کیا تھا تو انکی آنکھیں کھلیں ۔ لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ ان کے اندھا دھند پیروکار یہ کہتے ہیں کہ وہ سچّے اور عظیم انسان ہیں اسی لیے قوم خصوصاََ نوجوانوں کی اکثریت ان کے ساتھ ہے۔ یہ دلیل کافی نہیں ہٹلر اور مسولینی کے ساتھ بھی ایسی ہی اکثریت تھی لیکن آج ان کا کوئی نا م لیو ا نہیں۔اپنے مستقبل سے محروم نوجوان ماردھاڑ پر آسانی سے اتر آتے ہیں۔ لیڈر کا کام انہیں سیدھا راستہ دکھانا ہوتا ہے۔ مزید گمراہ کرنا نہیں بقول حفیظ اللہ نیازی عمران خان کے اندر صحیح سیاسی فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے ان کا تازہ ترین گنڈاسا ، علی امین گنڈا پور ہے۔ جن کے ذریعے عمران خان ایک نئے انتشار کی دھمکی دے رہے ہیں۔ وہ بھی ان حالات میں جب پاکستان عمران پروجیکٹ کے ہاتھوں زخم زخم ہے۔ جیسے فلمی دنیا سے گنڈاسا دور گزرنے کے بعد پتہ چلا کہ فلم انڈسٹری ہی تباہ ہو چکی ۔ اسی طرح عمرانی گنڈاسے کا یہ دور گزر نے کے بعد پتہ چلے گا کہ ہم نے کیا کچھ کھو یا ہے؟

تازہ ترین