• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں 8فروری 2024ء کو جو عام انتخابات منعقد ہوئے، وہ مختلف وجوہ سے متنازع نظر آ رہے ہیں اور ایک ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ جی ڈی اے کے مرکزی رہنما پیر پگارا نے سرِعام اعلان کیا ہے کہ انتخابات تین ماہ پہلے ہی فروخت ہو چکے تھے اور بندر بانٹ کا پورا منصوبہ تیار کر لیا گیا تھا۔ اِسی اعلان کے شانہ بہ شانہ 17فروری کو رَاولپنڈی کے کمشنر لیاقت علی چٹھہ نے انکشاف کر ڈالا کہ مَیں نے پورے ڈویژن میں آر اوز کے ذریعے انتخابات کے نتائج تبدیل کرائے ہیں۔ قوم کے ساتھ کیے ہوئے اِس جرم کا شدید احساس میرے ضمیر کیلئے ناقابلِ برداشت ہو گیا ہے، اِس لیے مَیں اپنے عہدے سے مستعفی ہوتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ میرے ساتھ چیف الیکشن کمشنر اور پاکستان کے چیف جسٹس کو سرِعام پھانسی دی جائے۔ کمشنر صاحب کا تبادلہ کر دیا گیا اور پولیس نے اُنہیں اپنی حراست میں لے لیا۔ پاکستان الیکشن کمیشن نے اُن کے لگائے ہوئے سنگین الزامات کی تحقیقات شروع کر دیں اور تازہ ترین اخباری اطلاعات کے مطابق تفتیشی کمیٹی میں پورے ڈویژن کے ڈی آر اوز اَور آر اوز نے اپنے بیانات جمع کرا دِیے ہیں جن میں سابق کمشنر کے اِس گھناؤنے الزام کی سختی سے تردید کی گئی ہے کہ اُنہوں نے دباؤ میں آ کر انتخابی نتائج تبدیل کیے تھے۔ یہ ہماری تاریخ کا پہلا واقعہ ہے جس میں اعلیٰ منصب پر فائز ایک بیوروکریٹ نے انتخابات میں دھاندلی کرنے کا کھلے عام اعتراف کیا ہے اور اَپنے لیے سخت ترین سزا بھی تجویز کی ہے۔

ہر طرف سے شکایات کا انبار لگنے سے یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ ’منصوبہ سازوں‘ نے ریاست کے وسیع تر مفاد میں انتخابات کے نتائج میں نہایت بھونڈے طریقے سے مداخلت کی ہے جس کے باعث کسی بھی سیاسی جماعت کو قطعی اکثریت حاصل نہیں ہو سکی اور سخت انتشار کی صورت پیدا ہو گئی ہے۔ اِس ضمن میں یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے کہ پورے خیبرپختونخوا اَور پنجاب کے شہروں میں تحریکِ انصاف کے ووٹر دیوانہ وار گھروں سے نکلے اور اُنہوں نے تمام تر رکاوٹوں کے باوجود حمایت یافتہ آزاد اُمیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالے۔ اِس بنا پر اِس جماعت کے اکابرین دعویٰ کر رہے ہیں کہ اُنہیں قومی اسمبلی میں 186سے زائد نشستیں مل چکی تھیں، مگر نتائج تبدیل کر کے صرف 92 نشستیں دی گئی ہیں، اِس لیے وہ سب سے پہلے اپنا مینڈیٹ حاصل کرنے کیلئے قانونی جدوجہد کریں گے۔ مولانا فضل الرحمٰن کا ارشاد ہے کہ اب فیصلے ایوانوں کے بجائے میدانوں میں ہوں گے۔ اعلان شدہ اِنتخابی نتائج کے مطابق کوئی بھی سیاسی جماعت حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں آئی، لہٰذا مخلوط حکومت کا آپشن ہی باقی رہ گیا تھا۔ اِس تناظر میں پیپلز پارٹی ایک ایسی جماعت کے طور پر اُبھری کہ اِس کی حمایت کے بغیر مخلوط حکومت قائم نہیں ہو سکتی تھی، کیونکہ اِس کی قومی اسمبلی میں 54 نشستیں ہیں جبکہ تحریکِ انصاف کو 92 اور مسلم لیگ نون کو 75 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ عمومی خیال تھا کہ تحریکِ انصاف اور پیپلز پارٹی مل کر حکومت بنا لیں گی، مگر تحریکِ انصاف کی قیادت نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے سے انکار کر دیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ جب اِسے 186 نشستیں مل جائیں گی، تو وہ تنہا حکومت بنائے گی۔

اِس غیرسیاسی طرزِعمل کے باعث مسلم لیگ نون کی قیادت نے پیپلز پارٹی کی قیادت سے رابطہ قائم کیا اور پہلی ہی ملاقات میں حکومت بنانے کا اصولی فیصلہ ہو گیا۔ اِس سے قبل مسلم لیگ کے قائد جناب نواز شریف اپنی مختصر تقریر میں یہ واضح کر چکے تھے کہ تمام جمہوری قوتوں کو پاکستان بچانے اور اِسے ایک معاشی طاقت بنانے کیلئے باہمی تعاون کرنا اور اِیثار سے کام لینا چاہیے۔ وہ یہ عندیہ پہلے ہی دے چکے تھے کہ وزارتِ عظمیٰ کی ذمےداری صرف اِسی صورت میں اُٹھائیں گے جب اُن کی پارٹی کو واضح اکثریت ملے گی، چنانچہ اُنہوں نے وزارتِ عظمیٰ کیلئے شہباز شریف کو نامزد کر دیا جنہیں پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت چلانے کا تجربہ بھی ہے۔ اُنہوں نے مختلف سیاسی قائدین سے ملاقاتیں کیں جنہوں نے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کی حمایت کا یقین دلایا۔ قومی اسمبلی میں مطلوبہ اکثریت پیدا کرنےکیلئے ایم کیو ایم کو بھی مخلوط حکومت میں شامل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ دونوں بڑی جماعتوں نے اپنی اپنی مشاورتی کمیٹیاں قائم کیں جنہوں نے فوری طور پر حکومت سازی کے مسائل پر غوروخوض شروع کر دیا اور ایک دوسرے سے ملاقاتوں کے دور بھی چلے۔

سخت اضطراب اور ہیجان کی کیفیت میں کام ازحد مشکل اور دُشوار تھا، کیونکہ انتخابی مہم کے دوران اِن تینوں جماعتوں کے مابین اختلافات بہت شدید تھے۔ بلاول بھٹو کہتے تھے کہ ہم نواز شریف کو چوتھی بار وَزیرِاعظم نہیں بننے دیں گے اور عوام کو بوسیدہ قیادتوں سے نجات دلائیں گے۔ اِسی طرح ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے دشمنی کی حد تک سیاسی حریف تھے، مگر جب اُنہوں نے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا، تو ناممکن بھی ممکن ہو گیا۔ سیاست دانوں نے پاکستان کی بقا کیلئے بڑی دانش مندی اور فراخ دلی سے آپس کے اختلافات پر قابو پا لیا اور 20 فروری کی رات پونے بارہ بجے ایک پریس کانفرنس منعقد ہوئی جس سے بلاول بھٹو اور میاں شہباز شریف نے خطاب کیا اور باہمی رضامندی سے بڑےبڑے فیصلوں کا اعلان کر دیا۔ اُن کے مطابق آصف علی زرداری صدرِ مملکت اور شہباز شریف وزیرِاعظم ہوں گے۔ پنجاب میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی حکومت بنائے گی جس کی وزیرِاعلیٰ محترمہ مریم نواز ہوں گی جو اَپنی بےپایاں صلاحیتوں کا سکّہ پہلے ہی جما چکی ہیں۔ اُنہیں پنجاب کی پہلی خاتون وزیرِاعلیٰ بننے کا اعزاز حاصل ہو گا۔ اِس پورے سیاسی بندوبست میں جناب نواز شریف ایک قائدانہ کردار اَدا کریں گے۔ ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ سیاسی مفاہمت کا دائرہ مزید وسیع ہو گا، میانہ روی اور سیاسی تحمل کو مزید فروغ حاصل ہو گا اور عوام میں ترقی اور خوشحالی کا قابلِ رشک دور شروع ہو گا۔ہمیں پورا یقین ہے کہ سیاسی مذاکرات سے انکار کرنے والوں کے کس بل حالات کا گرز نکال دے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین