• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

دو سال قبل پی ڈی ایم کے عمران حکومت اکھاڑنے (رجیم چینج) کے بعد تمام سیاسی تجزیہ نگار اور آئینی ماہرین مسلسل اور بڑھتے سیاسی و معاشی بحران کا سکہ بند اور مکمل آئینی حل الیکشن کے جلد از جلد انعقاد کو قرار دے رہے تھے۔ اس پر کان دھرتے شہباز حکومت چار چھ ماہ میں الیکشن کرا دیتی تو اس پرایک تو دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو روکے رکھنےکی آئین شکنی کا الزام نہ لگتا، الیکشن کمیشن تو یقیناً اس قابل گرفت جرم کا مرتکب نہ ہوتا اور ملک ناگزیر سیاسی عمل اور قومی معیشت کیلئے خطرہ بن گئے آئینی بحران سے نکل کر استحکام کی راہ پر چل نکلتا۔ لیکن پی ڈی ایم کی تیزی سے ناکام ہوتی حکومت نےجمہوری اور سیاسی جذبے اور فیصلے سے متصادم، 80 پلس کی کابینہ کو اقتدار کے جھولے کا وقت بڑھانے اور اس (کابینہ) میں مسلسل وسعت کا ڈیزاسٹرجاری رکھا۔ اور تو اور اس کا فالو اپ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے منتخب سیٹ اپ، سیاسی حربوں سے مدت پوری کرنے سے پہلے تبدیل کرنے تک پھیل گیا، صرف اس لئے کہ وہاں پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ پی ڈ ی ایم کی اس غیر جمہوری ذہنیت اور ملک بھر میں شدت سے مطلوب الیکشن کے انعقاد کو دیدہ دلیری سے ٹالنے نے الیکشن کمیشن کو بھی اتنی ہلا شیری دی کہ وہ بھی اس ’’مہم جوئی‘‘ میں پی ڈی ایم کا ہمرکاب ہوگیا اور اس نے کھل کھلا کر کہنا شروع کردیا کہ کمیشن ابھی اس آئینی فریضے کیلئے تیار نہیں۔ پیسے نہ ہونے اور سیکورٹی سہولت کی عدم دستیابی کے بہانے تراشے گئے اور عمران خان اور ان کی جماعت کو الیکشن کی طرف جانے سےروکنےکیلئےشہباز اور اس کے بعد نگران حکومت کا آلہ کار بن گیا۔ اس کا یہ مکمل قابل احتساب کردار اب پاکستان تو کیا، پوری دنیا میں بے نقاب ہوگیا، رہی سہی کسر آخری امید عدلیہ کی سیاسی تقسیم نے نکال دی، جس سے پاکستان کا امیج بطور جمہوری اور مستحکم ریاست بری طرح مجروح ہوا، سیاسی معاشی بحران سنگین ہوتا گیا۔ اس پر بھی پی ٹی آئی کے رہنمائوں اور کارکنوں کے خلاف پی ڈی ایم اور نگران حکومتی فسطائیت نے ملک میں سیاسی و آئینی بحران کو خطرناک درجے تک بڑھایا، جس کا ساتھ ساتھ منفی اثر ملکی اقتصادیات (میکرو) خصوصاً مائیکرو (عوامی) اکانومی پر پڑا، عوام دشمن نتیجہ پاکستانی تاریخ کی غیر معمولی (42فیصد اضافے تک) مہنگائی کی صورت میں نکلا، جو تادم بے قابو ہے۔ جدید تاریخ میں اتنا بڑا ریاستی داخلی کھلواڑ کسی ملک میں نہیں ہوا جو ایٹمی پاکستان میں ہوگیا۔تاہم اس ساری بنتی ملکی صورت نے عوام الناس کو ملک گیر سطح پر اپنے ووٹ سے تبدیلی برپا کرنے کیلئے ذہناً تیار اور سرگرم کردیا۔ وہ اپنی عدالت لگنے (الیکشن) کے شدت لیکن کمال صبر سے منتظر رہے اور ڈر اور خوف کے ماحول اور جملہ رکاوٹوں کے باوجود اجتماعی وقار سے جوق در جوق پولنگ اسٹیشنز کی طرف گئے اور پاکستان کی تاریخ کے سنہری ابواب میں ایک نئے باب کا اضافہ کرکے دم لیا۔ پرامن اور باشعور عوام نیشن بلڈنگ کیلئے اتنے بڑے بحران اور پابندیوں ، رکاوٹوں کے اتنے نامساعد حالات میں اور اس سے زیادہ کیا کرتے۔ پی ڈی ایم نے عمران دور میں پھیلی خطرناک عالمی وبا کی پروا کئے بغیر خود تو تین لانگ مارچ مہنگائی کے خلاف کئےلیکن اپنے 16ماہی دور میں عوام کو اس کی اجازت دی نہ ہی اسی (پی ڈی ایم) کی آف شوٹ نگرانی دور میں کسی بھی نوعیت کے احتجاج کا آئینی حق استعمال ہونے دیا گیا۔ خواہ یہ مہنگائی، غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف ہو یا آلودہ ترین الیکشن کے خلاف۔

قارئین کرام! ڈھائی سال پر محیط آج کے حالات حاضرہ کے پس منظر میں ریاست پاکستان اور پوری قوم پر بڑا ستم یہ ہوا کہ عوام نے 8 فروری کو لگی اپنی آئینی عدالت (الیکشن) سے ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے اپنی اجتماعی رائے (مع اجتماعی اختلافی نوٹ) سے سیاسی جماعتوں کو جو مینڈیٹ دیا اسے بڑی سفاکی اور بے رحمی سےسبوتاژ کردیا گیا۔ اس کے نتیجے میں شدت سے مطلوب ایک بڑی مستحکم حکومت اور جاندار اپوزیشن وجود میں آنے کا مکمل شفاف ، غیر متنازع اور مطلوب کے مطابق سرگرم رہنے کا بلارکاوٹ راستہ تو نکل آیا تھا۔ وائے بدنصیب عوامی فیصلے کو جس بری طرح مسترد کرکے جتنی بڑی آئین شکنی سے بحران میں جس قدر اضافہ کیاگیا ہے وہ عوام کے لکھے سنہری باب سے متضاد اتنا ہی سیاہ باب ہے، جو عوام کے شاندار اور قابل قدر فیصلے پر جبراً غالب کر دیاگیا ہے۔ اللّٰہ خیر۔

وائے بدنصیبی، خالص اور بھاری عوامی مینڈیٹ کو تو آلودہ اور متنازع ترین ملکی الیکشن نے بظاہر ٹھکانے لگا دیا یا قانونی موشگافیوں میں الجھا دیا۔ الیکشن کمیشن کا پروفیشنل ازم اس پر ووٹرز اور مدعی امیدواروں کا اعتماد پہلے ہی ختم ہو چکا بلکہ کتنے ہی آئوٹ آف دی وے معاملات اور نگرانی انتظامیہ کے قانون شکن اقدامات سے اس کی جانبداری پاکستانی پابند میڈیا سے نہ سہی انٹرنیشنل میڈیا سے بے نقاب ہوچکی۔ جیت کی شام غریباں انداز کے ماتمی جشن فتح اور اجلاسوں، پریس کانفرنسز میں لٹکے اداس چہروں سے اس کی گواہی ملی۔ فاتح پارٹیوں کے اندر زندہ ضمیر کے چراغ تو الیکشن سے پہلے ہی جلے اور اب بھی یہ گھپ اندھیرے کو نیم تاریک ماحول میں تبدیل کر رہے ہیں، جس میں بہت کچھ نظر آ رہا ہے۔سارا ملکی میڈیا مکمل یکطرفہ بنا دیا گیا، اس کی اس کیفیت و موجود حیثیت سے ہی بہت کچھ بے نقاب ہوگیا۔ بابائوں کا لشکر اپنی سدا کی وفاکے برعکس جتنا پریشان و مضطرب ہے وہ بھی دیدنی ہے۔حکومت سازی کے اس ایمی جیٹ بیک گرائونڈ میں ایک بڑی ’’پیش رفت‘‘ ہے۔ پی ڈی ایم جیسی ایک عجیب الخلقت حکومت نے جنم لیا ۔ یار لوگوں نے نام پی ڈی ایم ٹو رکھا ہے۔ ناچیز کو یوں لگا کہ بدترین شکل کے اسٹیٹس کو کی عارضی و ماتمی فتح سے تشکیل پائی حکومت عوامی مینڈیٹ سے متصادم تو ہے ہی لیکن اس کے پس پردہ پھر موروثی راج ملک پر مسلط کرنے کے ماحول کے دنوں میں بھی نگراں حکومت عوامی ضروریات و جذبات سے متصادم جو کچھ کر رہی ہے، اس سے پاکستان میں بالآخر مافیاراج کا خاتمہ ہوگا اور پاکستان کے گھمبیر سے گھمبیر ہوتے سیاسی و اقتصادی بحران کے ختم ہونے کی راہ نکلے گی کہ خلق خدا جاگ رہی ہے اور ہوشیار بھی ہے۔

تازہ ترین