• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

‎سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی غلط رپورٹنگ سے کئی غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں اور ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ جیسے سپریم کورٹ نے دوسری آئینی ترمیم سے انحراف کیا ہے اور مذہب کے خلاف جرائم کے متعلق مجموعۂ تعزیرات پاکستان کی دفعات ختم کرنے کیلئے کہا ہے، یہ تاثر بالکل غلط ہے۔ ‎مقدمہ بعنوان ”مبارک احمد ثانی بنام ریاست“ میں سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا تھا کہ اس مقدمے کی ایف آئی آر میں مذکورہ الزامات کو جوں کا توں درست تسلیم بھی کر لیا جائے تو اُن پر اِن دفعات کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ فوجداری ترمیمی ایکٹ 1932کی دفعہ 5کا اطلاق ہوتا ہے جس کے تحت ممنوعہ کتب کی نشر و اشاعت پر زیادہ سے زیادہ 6 ماہ قید کی سزا دی جا سکتی ہے چونکہ درخواست گزار پہلے ہی قید میں ایک سال سے زائد عرصہ گزار چکا ہے اس لیے مذہبی احکام، آئینی دفعات اور قانون و انصاف کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے درخواست گزار ملزم کی رہائی کا حکم دیا۔ افسوس کہ ایسے مقدمات میں جذبات مشتعل کیے جاتے ہیں اور اخلاقی احکام بھلادیے جاتے ہیں۔ فیصلے پر غیر مسلموں کی مذہبی آزادی سےمتعلق آئین پاکستان کی جو دفعات نقل کی گئی ہیں ان میں واضح طور پر یہ بندش موجود ہے کہ حقوق، قانون، امن عامہ اور اخلاق کے تابع ہی دستیاب ہونگے آئین کے آرٹیکل 20میں یہ واضح ہے کہ ”قانون، امنِ عامہ اور اخلاق کے تابع ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اسے بیان کرنے کا حق حاصل ہو گا، ہر مذہبی گروہ اور اس کے ہر فرقے کو اپنے مذہب کو اپنانے، اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے، ان کی دیکھ بھال اور ان کے انتظام و انصرام کا حق ہو گا۔“ ‎اسی نوعیت کے ایک مقدمے میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ تفصیلی فیصلہ دے چکا ہے ملاحظہ ہو (ظہیر الدین بنام ریاست 1993)۔ موجودہ فیصلے میں اس فیصلے سے قطعی کوئی انحراف نہیں کیا گیا۔‎ چیف جسٹس آئینِ، بالخصوص ہیومن رائٹس کے کسٹوڈین ہیں اور اُن سے بڑھ کر کون اس ایشو کو سمجھتا ہے کہ آئین میں درج ہیومن رائٹس کی حیثیت کس قدر ابدی نوعیت کی حامل ہے، جن ادوار میں پورا آئین معطل کیا جاتا رہا تب بھی سپریم جوڈیشری کے ایسے فیصلے موجود ہیں جن کے مطابق یہ معطلی انسانی حقوق پر اثر انداز نہیں ہو سکتی یو این ہیومن رائٹس چارٹر کے مطابق جس پر دستخط کرتے ہوئے ریاست پاکستان نے ”عالمی عہد نامہ“ دے رکھا ہے کہ وہ بہرصورت یواین ہیومن رائٹس چارٹر کی پابند رہے گی۔ ‎آئین میں درج شخصی حقوق کا مدعا ہی یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی فرد یا اقلیت کے حقوق کو میجارٹی کے جبر یا دھونس پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔ ریاست و قانون کا ابدی و ازلی مدعا یہ ہے کہ وہ کسی طاقتور کو مزید طاقتور بنانے کی بجائے کمزور اور دبے ہوئے افراد یا طبقات کا سہارا بنے۔ جناب چیف جسٹس سے بڑھ کر کسے معلوم ہو گا کہ ہمارے دوسرے خلیفہ راشد نے مؤلفۃ القلوب کے واضح قرآنی حکم کو یہ استدلال کرتے ہوئے معطل کر دیا تھا کہ حالات بدلنے سے حکم بدل جاتا ہے، نو مسلموں کی تالیف قلب تب تو قابلِ فہم تھی جب وہ تگڑے طبقے کو چھوڑ کر کمزور گروہ، طبقے یا فرقے میں آتے تھے اب جب وہ کمزور طبقہ پست کی بجائے حاوی ہو چکا ہے تو ان کی دلجوئی چہ معنی دارد؟‎ چاہیے یہ کہ محض حاوی یا طاقتور طبقہ سے متعلقہ ریفرنسز پیش کرنے کی بجائے ریاست کے کمزور افراد، فرقوں یا طبقات کے مقدسات، اکابرین، داناؤں، دانشوروں اور مدبروں کو بھی بطور ریفرنس اپنے استدلال میں لایا جائے۔ ‎اپنے حالیہ فیصلے ”مبارک احمد ثانی بنام ریاست“ میں جو سترہ پوائنٹس پیش فرمائے گئے ہیں وہ ایک طرح سے اسی اپروچ کا مظہر ہیں جو جناب چیف جسٹس نے فیض آباد دھرنا کیس میں سامنے آئیتھی۔ ان کا یہ فرمانا کس قدر صائب ہے کہ ”ہمیں افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے، مذہب کے خلاف جرائم سے نمٹتے ہوئے جذبات حقائق کی جگہ لے لیتے ہیں“ اور پھر یہ جذبات مجروح ہونے کا نفرت انگیز پروپیگنڈا میڈیا میں اس قدر پھیلایا جاتا ہے جس سے سوسائٹی کے کمزور اور دبے ہوئے طبقات سہم کر نہ صرف مزید خوفزدہ ہو جاتے ہیں بلکہ بارہا ان کی جان، مال اور آبرو خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ آج اکیسویں صدی میں فکری، نظری اور عملی طور پر دنیا جس تیزی سے بدل رہی ہے اس میں روادار و معتدل انسانی سوسائٹی کا تصور نکھر رہا ہے، مسلم دنیا بھی ان تبدیلیوں کو خوش آمدید کہہ رہی ہے مگر اپنا حال یہ ہے کہ زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد۔

تازہ ترین