• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اٹل جمہوری کلیہ ہے: عوامی نمائندگی نہیں تو کوئی ٹیکس نہیں، عوامی نمائندگی بنا آئی ایم ایف کا مالی و مالیاتی پروگرام بھی نہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام تو ہے ہی ٹیکسوں، اخراجات اور مالی و مالیاتی معاملات سے متعلق۔ عمران خان نے عالمی مالیاتی فنڈ کو انتخابی دھاندلی کی تحقیقات و نتائج کے سدھار کیلئے خط کیا لکھ دیا کہ ہر طرف سے حب الوطنی کی سنگساری شروع کردی گئی۔ بھلا اعلیٰ و ارفع حب الوطنوں سے کوئی پوچھے کہ حب الوطنی کے جسد خاکی میں کب سے آئی ایم ایف کی استعماری روح شامل کردی گئی ہے ۔ آئی ایم ایف کے دو درجن سے زائد پروگراموں کا کشٹ کاٹنے کے باوجود دست نگر اور قرض خواہ کرایہ دار ریاست پھر سےکاسہ گدائی لیے آئی ایم ایف کے در پہ کھڑی بھیک مانگ رہی ہے اور بیچاری قومی غیرت ہے کہ کب کی کہیں عصمت گنوا چکی ہے۔ بھلا نیولبرل اکنامکس کے کلرکوں سے کوئی پوچھے کہ معاشی بحران کا منبع کیا ہے؟ مالی و مالیاتی بحران کا بیگانہ اظہار مسئلہ ہے یا پھر اصل معیشت کا بحران اسکا بنیادی سبب ہے۔ عالمی محققین اس نتیجے پہ پہنچ چکے ہیں کہ آئی ایم ایف کے استحکام پیدا کرنے والے پروگرام سے کہیں پائیدار معیشت برآمد نہیں ہوئی۔ دائمی قرض خواہی، دائمی افلاس اور دائمی معاشی بحران کا شیطانی چکر تیسری دنیا کی دست نگر معیشتوں کے گلے کا مستقل طوق بن کے رہ گیا ہے۔ عمران خان کے خط پر برہم حب الوطنی کے طفیلی رجواڑوں کو تکلیف ہے تو بس یہ کہ رائے دہندگان کے حق چنائو کے سرقہ بالجبر کی تحقیقات اور اصلاح کیلئے جو گورننس کی تمام تر اصلاحات کیلئے جزو لاینفک ہے کو مالی و مالیاتی اصلاحات کے پیکیج کے ساتھ نتھی نہ کردیا جائے۔ کیا تمام عالمی مالیاتی ادارے مالی اصلاحات کیلئے گورننس کی اصلاحات پر زور نہیں دیتے اور ایسا کر کے وہ معاشی خود مختاری اور اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ تو پھر عمران خان نے ایسا نیا جرم کیا کیا ہے جس پر اسے غداری کا مرتکب قرار دیا جارہا ہے۔ بیچ میں عوام کا واسطہ تو انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ عمران کی اس مہم جوئی سے نقصان حکومت کا نہیں عوام کا ہوگا۔ بھلا کسی بھی آئی ایم ایف کے پروگرام سے عوام کا کبھی فائدہ ہوا ہےتو ہمارے دانشمند کالم نگار ہماری معلومات میں اضافہ کردیں۔ عالمی مالیاتی ادارے استعماری بینک ہیں جنہیں سامراجی ممالک چلاتے ہیں۔ جب وہ قرض دیتے ہیں تو ایسی شرائط کے ساتھ کہ مع سود انکی واپسی کا اہتمام کریں۔ اس کی یقین دہانی کیلئے وہ سارا زور مالیاتی و مالی خساروں میں کمی پہ رکھتے ہیں۔ آگے کرایہ خور گماشتہ حکمرانوں کی سیاسی معیشت کا چکر چلتا ہے۔ امرا کے قبضہ کی باریابی کیلئے وہ معاشی تنگ دستی کا بوجھ عوام پہ ڈال دیتے ہیں اور اخراجات کی عیاشیاں برقرار رکھتے ہوئے عوام کو بنیادی انسانی ضروریات اور معاشی سلامتی سے محروم کرتے چلے جاتے ہیں۔ اگر عوام الناس کے حقیقی عوامی اور جمہوری نمائندے منتخب ہونگے تو انکی سیاسی معیشت کا رخ حقیقی پیداواری معیشت پر ہوگا اور امیروں کی بجائے غریبوں کی خوشحالی اور ترقی پہ ہوگا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ تمام بڑی پارٹیاں امرا کے مفادات سے جڑی ہیں اور عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔

جب ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ عمرانی معاہدہ توڑے گی اور آئین و قانون کی بندشوں کی اطاعت نہیں کرے گی تو شہری آہ و بکا تو کریں گے ہی۔ حب الوطنی کی اجارہ دار ریاست نہیں، نہ ہی یہ مقتدر اعلیٰ ہے۔ صرف اور صرف عوام ہیں۔ ہمارے آئین کا پہلا باب ہی عوام کی حکمرانی کے وظیفے سے شروع ہوتا ہے، باقی سب اسکے تابع اور اگر نہیں تو کوئی بھی مقتدر اعلیٰ نہیں اور ریاست سے عوام کو نکال دیا جائے تو ریاست رہتی ہے نہ مقتدر اعلیٰ، فقط زمین کا ایک ٹکڑا۔ مملکت کا اقتدار اعلیٰ بھی عوام اپنے رائے دہی کے عالمی حق کے استعمال سے آزادانہ طور پر شفاف انتخابات کے ذریعہ جائز طور پر منتخب نمائندوں کے حوالے کرتے ہیں۔ اگر رائے دہندگان کے حق چنائو کا سرقہ بالجبر کردیا جائے تو ریاست اور شہری کے مابین عمرانی معاہدہ ٹوٹ جاتا ہے۔ پھر فریقین کے مابین جنگ کا قانون قاعدہ ختم ہوجاتا ہے۔ اور پھر فریق اپنی اپنی لڑائی میں آزاد ہوتا ہے نہ کوئی بندش، نہ کوئی روک ٹوک۔ کیا میانمار (برما) کی خونیں فوجی جنتا کے خلاف عوام کو حق بغاوت نہیں اور انکا عالمی برادری سے انصاف کا تقاضہ حب الوطنی کی تنسیخ کہلائے گا؟ کیا عرب اسپرنگ کے مصری غدار تھے؟ یا پھر برصغیر کی جنگ آزادی کے حریت پسند محب وطن نہیں تھے؟جس طرح کی انتخابات کے دوران تحریک انصاف کے ساتھ سختیاں اور زیادتیاں ہوئیں، ویسا پاکستان کی تاریخ میں اس پیمانے پر نہیں ہوا اور 2018 کے سب ریکارڈ توڑ دئیے گئے۔ انتخابی مہم چلانے کی اجازت تھی نہ بلے کا نشان رہا۔ اگر انتخاب صاف ہوا تو 8 فروری کو دن کی روشنی میں کہ سب اُجلا اُجلا نظر آئے۔ جونہی رات پڑی تو جیتنے والے بیشتر امیدوار اپنے ہاتھوں میں پولنگ اسٹیشنوں سے حاصل کردہ فارم 45 گنتے رہ گئے۔ انٹرنیٹ بند کردیا گیا اور نتائج کی ترسیل کا نظام معطل کردیا گیا۔ جب دیر سے فارم 47 جاری ہوئے تو لگتا ہے بہت سی جگہوں پہ آر اوز گنتی بھول گئے۔ فارم 45 کا نتیجہ کچھ اور فارم 47 میں کچھ۔ ایسی طلسماتی گنتی صرف ریفرنڈمز میں ہی نظر آئی۔ اب فارم 48 بھی آگیا ہے جس میں ہر پولنگ اسٹیشن کا نتیجہ بھی شامل ہے۔ اب وہ کامیاب امیدوار جو ناکام ٹھہرائے گئے کبھی فارم 45 دیکھتے ہیں کبھی جیتنے والے کا فارم 48۔ سوائے نواز لیگ کے ساری جیتنے اور ہارنے والی جماعتیں دھاندلی کا شور مچارہی ہیں۔ نتیجتاً سارا انتخابی عمل اور خاص طور پر نتائج متنازع ہوگئے ہیں۔ سچائی کتنی ہے فسانہ کتنا ہے، اسکا تعین کیے بنا جو بھی حکومتیں بن رہی ہیں انہیں اخلاقی جواز میسر نہیں ہوگا۔ مقتدرہ + اولیگارکی = ہائبرڈ رجیم دوم کے بطن سے ایسے ایسے بحران جنم لیں گے کہ مملکت خداداد بڑی آفتوں کی لپٹ میں آسکتی ہے۔ اس بحران سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ایک اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن تمام مبینہ دھاندلی والے حلقوں کا جائزہ لے کر تین ماہ کے اندر حقیقت سامنے لائے۔ کام مشکل نہیں صرف فارم 45کی بنیاد پر فارم 46، 47 اور 48 کا جائزہ لے کر اصل نتائج پر پہنچنا ہوگا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو ایک نئے میثاق صلح جوئی و رواداری اور میثاق شفاف جمہوریت پہ اتفاق کرنا ہوگا اور ریاست کو سیاست سے مستقلاً باہر رکھ کر اس کی توقیر بحال کرنی ہوگی۔ سب سے بڑھ کر عوام کے حق رائے دہی کی فتح کو یقینی بنانا ہوگا۔ نہیں تو ہنگامے ہی ہنگامے اور جانے انجام گلستاں کیا ہو؟

تازہ ترین