• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرنس چارمنگ بلاول بھٹو زرداری بہادر ہیں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہیں۔ ان کا سیاسی مستقبل روشن اور تابناک ہے۔ آپ پی ڈی ایم حکومت کی سولہ ماہی ناکامی کےبارے میں لاکھ دلیلیں دیں، مہنگائی بڑھنے کے الزامات لگائیں، مشکل ترین حالات میں بدترین فیصلوں پر تنقید کریں لیکن ایک بات بالکل واضح ہے کہ اس ناکامی کے پیچھے سابق کپتان کی پونے چار سال میں پھیلائی اندھا دھند تباہی تھی جسے سنبھالنا کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ ہم معاشی طور پر دیوالیہ ہوچکے تھے۔ عالمی سفارت کاری میں تنہا کھڑے تھے۔ چین، امریکہ، یورپ، عرب ممالک اور بھارت سمیت سبھی ممالک ہم سے ناراض تھے۔ صرف افغان طالبان انتظامیہ اور سابق کپتان ایک دوسرے کے ہم نوا تھے۔ ایسے بُرے حالات میں پی ڈی ایم حکومت نے آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کی کڑوی گولی نگل کر ملکی معیشت کو دھکا دینے کی کوشش کی، یہ کوئی آسان کام نہیں تھا کہ کوئی ریاست بچاتے بچاتے اپنی سیاسی میراث ہی کھو بیٹھے۔

ان مشکل حالات میں جب ریاست اور معیشت دونوں ہی خطرے میں ہوں، بیرونی ممالک سے سفارت کاری کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ پی ڈی ایم حکومت کے پرنس چارمنگ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بہت کم عرصے کے دوران یہ کام کر دکھایا۔ اس مرحلے پر بھی مخالفین یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ کم کم پاکستان کے دورے پر آتے ہیں۔ ان کا زیادہ تر وقت بیرون ملک سیر سپاٹوںمیں گزرتا ہے۔ تنقید برائے تنقید کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ مشکل حالات میں جب آپ مکمل تنہائی کا شکار ہوں، پچھلوں نے ایسی تباہی مچائی ہو کہ جس کا کم وقت میں ازالہ کرنا مشکل ترین کام ہو، ایسے میں کوئی شخص اپنی سفارتی ذمہ داریاں نبھانے کی خاطر بھاگ دوڑ کررہا ہو، اسے کبھی سرکاری اور کبھی غیر سرکاری طور پر بیرونی دورے کرنا پڑتے ہوں، سفارت کاری کے یہ انداز ہوتے ہیںکہ جو معاملات آپ سرکاری طورپر نہیں کرسکتے وہ نجی ملاقاتوں سے ہی نمٹائے جاتے ہیں۔ جہاں تک پرنس چارمنگ کا تعلق ہے تو انہوں نے سفارت کاری کے محاذپر نہایت ذمہ داری اور سیاسی پختگی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے چین سمیت تقریباً تمام اہم ممالک کے ساتھ تعلقات کی بحالی، استحکام اور پاکستان کو تنہائی سے نکالنے کی بھرپور کوششیں کیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سابق کپتان نے ہمیں جس سفارتی تنہائی میں دھکیلا تھا اس بھنور سے اگر کسی نے نکالا ہے تو وہ پرنس چارمنگ ہی ہیں کہ شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کے پہلے دور میں انہوں نے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائیں۔

مجھے آج بھی 22مئی 2022ءکو ان کی چینی ہم منصب سے پاک چین سفارتی تعلقات کی 71 ویں سالگرہ کے موقع پر ملاقات کی وہ تصویر یاد ہے کہ دونوں ممالک کے پرچموں کے درمیان پاک چین وزرائے خارجہ سرکاری تصویر کھنچوانے کھڑے ہیں۔ چینی وزیر خارجہ وانگ ای بلاول بھٹوکے بازو میں بازو ڈالے زنجیر بنائے دنیا کو واضح پیغام دیتے نظر آرہے تھے کہ ہم حقیقی برادر ہیں۔ چینی وزیرخارجہ نے پرنس چارمنگ سے جس والہانہ محبت کا اظہار کیا تھا اس سے صاف ظاہر تھا کہ یہ محبت دونوں ملکوں کے ساتھ ساتھ بلاول بھٹو کے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ بےنظیر بھٹو سے ان کی گہری محبت و عقیدت کا اظہار ہے۔ بین الاقوامی سفارت کاری میں عمومی طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ چینی قیادت اپنے سفارتی تاثرات کے اظہار کو زیادہ تر پبلک نہیں کرتی لیکن اس موقع پر چینی قیادت نے جس طرح پرنس چارمنگ کا استقبال کیا اور سی پیک کے پس منظر میں پاکستان کے ساتھ اقتصادی، صنعتی و تجارتی سرمایہ کاری بارے باہمی تعاون کی یقین دہانی کرائی وہ سابق کپتان کی چین سے تعلقات خراب ہونے کے بعد پہلی ایسی کوشش تھی جس سے پاکستان کو معاشی طور پر سانس لینے کا موقع ملا۔ وہ نوجوان ہے اور ہینڈ سم بھی، عالمی رہنماؤں سے گفتگو کرتے ہوئے گھبراتا بھی نہیں۔ اسے سفارت کاری میں کسی سہارے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ وہ ہر موضوع پر سنجیدہ گفتگو کرنا جانتا ہے اور پارلیمنٹ میں بحث کے دوران اپنے مخالفین کو جس طرح لتاڑتا اور سنجیدہ ترین قانونی و آئینی موضوعات پر اپنا موقف بیان کرتا ہے بڑے بڑے تجربہ کار سیاست دان بھی اس کے سامنے ہیچ نظر آتے ہیں۔ وہ دلیر ہے ، درددل بھی رکھتا ہے۔ اسے لوگوں کے دکھ درد کا بھی احساس ہے۔ کوئٹہ میں وکلاءکی شہادتوں پر اپنی والدہ کی شہادت کا ذکر کرتے جس طرح ہچکیاں لے لے کروہ رو رہا تھا یہ منظرسب نے دیکھا ہے۔ وہ منظر بھی سامنے ہے کہ جب پنجاب میں سیلاب آیا تھا وہ پہلی بار چنیوٹ کے متاثرہ علاقے میں گیا۔ پروٹوکول چھوڑ کر گہرے پانی اور کیچڑ میں اتر کر پسینے میں شرابور بوڑھی عورت سے ملا۔ بزرگ خاتون نے پوچھا ”اے کون اے؟“ مقامی شخص نے بتایا”اے بے نظیر دا پتُر اے“ یہ سنتے ہی بوڑھی اماں نے اُسے سینے سے لگا لیا۔ اس کے چہرے کا بوسہ لیا اور دعائیں دیں۔ وہ نڈر ہے، طاقت وروں کے سامنے اپنی بات منوا سکتا ہے۔ سیاسی مخالفین کو بھی للکارتا ہے۔ اس کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایئے۔اس کو بھی چاہیے کہ کٹھن حالات میں بننے والی شہباز حکومت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہو۔ سفارتی محاذ پرپاکستان کو مکمل تنہائی سے نکالنے میں اپنا بھرپورکردار ادا کرے۔ وہ پاکستان کا بہت بڑا سیاسی سرمایہ ہے۔ اس سے کام لیں ، وہ ساتھ ہوگا تو ہارا ہوا لشکر بھی کامیاب ہو جائے گا۔

تازہ ترین