کچھ مہینوں پہلے تک فردوسی صاحب ایک نارمل حجام تھے۔ اُنہیں اونچی آواز میں میوزک لگا کر کام کرنے کی عادت تھی۔ زیادہ تر ہندوستانی فلموں کے گانے پسند کرتے تھے۔ آپ گاہک کا شیو کرتے وقت طبلے کے ’ٹھیکوں‘ کے حساب سے سٹروک لگایا کرتے تھے۔دکان میں 14انچ کا ٹی وی بھی لگا رکھا تھا جس پر ہر وقت نئی فلموں کے گانے چلتے رہتے تھے۔
لوڈشیڈنگ کی صورت میں چونکہ ٹی وی نہیں چلتا تھا لہٰذا آپ کام دھندا چھوڑ کر اطمینان سے بیٹھ جاتے۔ گاہکوں کی قطاریں لگتی جاتیں لیکن کوئی کچھ نہ کہتا کیونکہ سب کو پتا تھا کہ بجلی آئے گی،ٹی وی چلے گا ،گانا لگے گا تو قبلہ ہوش میں آئیں گے۔کئی دفعہ ایسا ہوا کہ دوران کٹنگ یا شیو‘ لائٹ چلی گئی۔ پھر اس کے بعد گاہک کو ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑا تب کام ہوپایا۔ جن گاہکوں کو جلدی ہوتی تھی وہ لوڈشیڈنگ کے ڈر سے اپنے موبائل میں گانے بھر کے لے آتے تھے اور منٹوں میں شیو کروا کے نکل جاتے تھے۔
چار ماہ پہلے اچانک آپ پر انکشاف ہوا کہ آپ کو کسی کا مرید ہوجانا چاہیے۔بالآخر آپ کو ایک مرشد مل ہی گیا۔ مرشد سے ملاقات کیا ہوئی، آپ ایک دم بدل گئے۔گانے سننا چھوڑ دیے‘ ٹی وی توڑ ڈالا اور شیو کرنے سے انکار کر دیا۔ اب آپ صرف بالوں کی کٹنگ کرتے ہیں ۔ آپ تین چار ماہ میں اپنے تئیں عالم بن چکے ہیں اور اب ہر آئے گئے کو اپنے خیالات عالیہ سے نوازتے رہتے ہیں۔آپ نے کوئی دینی کتاب نہیں پڑھی اس کے باوجود آپ کو یقین ہے کہ بحث میں آپ کو کوئی نہیں ہرا سکتا۔ اگر کوئی آپ سے جیتنے کی کوشش کرے تو آپ احتیاطاً اُسترے میں نیا بلیڈ ڈال لیتے ہیں اور یوں مخالف کی تنقید موقع پر ہی دم توڑ جاتی ہے۔
ہمارے اردگرد ایسے بے شمار لوگ بکھرے پڑے ہیں جو اچانک نیک بن جاتے ہیں اور اس کے بعد ہر ایک کا جینا محال کردیتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایسے ہی ایک نیک صاحب سے ملاقات ہوئی ‘ بتانے لگے کہ پہلے میں چوریاں کرتا تھا‘ ڈاکے مارتا تھا‘ ایک قتل بھی کیا لیکن پھر ہدایت آن پہنچی اور میں سچے دل سے توبہ کرکے نیک انسان بن گیا۔ میں نے پوچھا’وہ جوآپ نے چوریاں‘ ڈاکے اور قتل کیا تھا اس کی سزا آپ کو ملی؟‘ اطمینان سے بولے’بتا تو رہا ہوں کہ سچے دل سے توبہ کرلی تھی‘۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ’ ملکی قوانین کے مطابق آپ کو سزا ملنی چاہیے تھی کیا توبہ کے بعد ملکی قوانین لاگو نہیں ہوتے؟‘…گھور کر بولے’جب خدا نے معاف کردیا تو دنیا کون ہوتی ہے سزا دینے والی‘۔ بے اختیار میرے منہ سے نکلا’یہ آپ کو کیسے پتا چلا کہ خدا نے معاف کر دیا ؟‘...یہ سنتے ہی انہوں نے مجھے جہنم کی نوید سنائی اور تسبیح پھیرتے ہوئے واپسی کا قصد کیا۔
’’نیکی کا خمار‘‘ بہت سے لوگوں کے سر چڑھ کر بولتاہے۔ اس میں خصوصاً وہ لوگ شامل ہیں جن کے ساتھ یہ حادثہ اچانک پیش آتاہے۔ آپ نے کئی ایسے لوگ دیکھے ہوں گے جو بڑے کھلنڈرے سے ہوتے ہیں لیکن کچھ عرصہ بعد آپ ان سے ملیں تو وہ نہ صرف باریش ہوچکے ہوتے ہیں بلکہ آپ کی ہر حرکت میں کوئی نہ کوئی گناہ بھی تلاش کر لیتے ہیں۔ اوراگر آپ ان کی کوئی غلطی پکڑ لیں تو نہ صرف ناراض ہوجاتے ہیں بلکہ آپ کے اس عمل کو بھی گناہ قرار دے دیتے ہیں۔ ان کے پاس کئی ایسے نکتے موجود ہوں گے جو آپ کو گنہگارثابت کردیں گے۔اِن کی نظر میںنیک صرف یہ خود ہیں۔ ان کا کوئی جھوٹ بھی پکڑا جائےتو اس کے عقب میں کوئی مصلحت تلاش کرلیں گے۔یہ آپ کی چھوٹی چھوٹی بشری کمزوریوں کو یوں زوم کرکے بیان کرتے ہیں کہ خود آپ کو احساس ہونے لگتا ہے کہ آپ پکے دوزخی ہیں۔
یہ وہی برگزیدہ ہستیاں ہیں جو ہر بات میں آپ کو بتاتی ہیں کہ ’میں نے ساری زندگی کبھی غلط بات برداشت نہیں کی،میں نے ہمیشہ سچ کا ساتھ دیا ہے،مجھے بڑی بڑی آفرز ہوئیں لیکن میں نے حرام کو ٹھکرا دیا،اب میرے گھر میں ہر وقت نور برستا ہے وغیرہ وغیرہ‘‘۔
ان کی پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ آپ کو مسلمان کہلوانے کے حق سے محروم کر دیا جائے۔یہ آپ کے سر سے پائوں تک مختلف اعتراضات کی پٹاری کھول لیتے ہیں۔ان کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ باتوں باتوں میں آپ کو باور کردیا جائے کہ آپ کے درجات بہت کم تر ہیں۔ اصل ولی کامل یہ خود ہیں۔
یہ اپنے دورِ جہالت کے واقعات سنا کر دنیاکو مرعوب کرتے ہیں اور بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ اب اِن کی زندگی میں سکون ہی سکون ہے۔ حالانکہ آپ کبھی ان کے اردگرد رہنے والوں سے‘ ان کے بیوی بچوں سے ‘ رشتہ داروں سے ملیں۔ سب ہی ان سے تنگ ہوتے ہیں۔یہ ایمرجنسی متقی بن جانے والے اکثر لوگ معاشرے کیلئے اتنے تنگ نظر بن جاتے ہیں کہ ان کی نیکی سب کو خوفزدہ کردیتی ہے۔کسی نے لکھا تھا کہ’’میں بہت زیادہ نیک لوگوں کے پاس نہیں بیٹھتا‘ ان کے اندر سے نیکی کی اتنی تیز خوشبو نکل رہی ہوتی ہے کہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتی‘‘۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)