• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا پر فراق کی حکمرانی ہے،اسی کے باعث دل کے صحن میں اداسی اور ملال کا مستقل ڈیرہ ہے۔ شادمانی وقتی اور مصنوعی جبکہ تڑپ مستقل اور کیفیت ہے۔ حاصل وصول کرب ہے۔ کائنات کے ہر مظہر اور ہر ذرے میں فراق سمایا ہوا ہے۔ باطنی طور پر ہر پل ادھورے پن کی اذیت جھیلتے انسان کو ظاہر میں شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ وہ ہوا، روشنی اور جینے کے لوازمات کے ساتھ زمین و آسمان اور خلا میں رکھی تشنگی بھی وجود میں اتارتا ہے۔ یوں اس کا دکھ دو آتشہ اور شدید تر ہے۔ رومی کے مطابق انسان روح کی حالت میں یکتا اور جسم کی غلاظت سے پوری طرح پاک صاف تھا سورج کی طرح روشن اور پانی کی طرح شفاف تھا پھر جب روح کا نور جسم کے پنجرے میں مقید ہوا تو برج کے سائے کی طرح بہت سے حصوں میں تقسیم ہو گیا۔یہ تقسیم ہی اصل مسئلہ ہے۔ وحدت کو مجروح کرنیوالی تقسیم انسانی روح کو درد ِفراق سے یوں لبریز کر دیتی ہے کہ وہ تڑپ اٹھتی ہے۔ یہی رب کی منشا ہے کہ بندہ اس کی محبت میں ریاضت کا ایک لمبا سفر طے کر کے دوبارہ اس سے وصال کرے۔ زندگی ایک عجیب سفر ہے۔ روح کو جسم کے پنجرے میں قید کرکے اجنبی دنیا میں بھیجا جاتا ہے اس شعور اور تڑپ کیساتھ کہ واپس اپنے گھر پہنچنا ہے۔ رومی کے نزدیک روح مطلق سے انسانی روح کی جدائی شدید تشنگی اور تڑپ کا باعث ہے۔ وہ مثنوی کے آغاز میں بانسری کی ایک حکایت سے کائنات اور انسان کی ازلی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بانسری کو بانس کے درخت سے کاٹ کے بنایا جاتا ہے۔ کٹنے یعنی اصل سے دور ہونے اور محدود ہونے کا درد اس کے گیت میں سرایت کئے ہوئے ہے۔ یہی حال انسان اور خدا کا ہے۔ ایک لافانی وجود میں موجود ہونا انسانی روح کیلئے زیادہ معتبر ہے۔ رومی تڑپ کیساتھ جدوجہد کو جوڑ کر ترقی کا راز سمجھاتا ہے۔رومی کے نظریہ ارتقاء کے مطابق جب خدا نے انسانی روح کو خود سے جدا کیا تو وہ اگرچہ شعور کے سب سے نچلے درجے جمادات کی شکل میں ظہور پذیر ہوئی مگر اس کے اندر فراق کا درد اتنا شدید تھا جس نے اسے جدوجہد پر اکسایا۔ طلب اور اشتیاق اسے نباتات تک لے آئے جہاں حرکت اور سبزے کی برکت اسے نصیب ہوئی مگر یہ اس کی منزل نہیں تھی۔ ایک لمبے سفر کے بعد وہ حیوانات اور پھر انسانی وجود میں آئی تو تڑپ، ادھورے پن اور ہجر کی شدت نے جنون کا روپ دھار لیا۔ کیونکہ اس سطح پر اپنی اصلیت سے شعوری آگاہی نے اسے شدید کرب سے آشنا کر دیا۔ رومی اس کرب، تشنگی اور جنون کو عشق کہتا ہے۔اس کے نزدیک کائنات کشش ثقل نہیں بلکہ عشق کے ضابطوں کے باعث قائم ہے اور مسلسل ترقی پزیری کے عمل سے گزر رہی ہے۔کائنات کا ہر مظہر عشق کا اظہار ہے۔ ذات مطلق نے اپنے عاشقوں کے من میں ہجر و فراق پیدا کرکے انھیں ہر پل وصل کیلئے جدوجہد پر مائل کر رکھا ہے۔مطلب یہ کہ معشوق نے گھر کا پتہ اور رستے کی نشانیوں کے ساتھ سفر کا اصل زاد راہ یعنی پختہ ارادہ بھی عنایت کیا ہے۔ یہ بتدریج کمتر سے برتر کی طرف کا سفر ہے۔ جس میں طالب اپنے مطلوب کی ذات میں ڈھلتا یا مطلوب کی صفات اپناتا ہوا آگے بڑھتا جاتا ہے۔ کوشش کے اس لگاتار عمل کی کئی سطحیں ہیں۔ترقی صرف انسان تک محدود نہیں بلکہ زمین، آسمان، سیاروں اور ستاروں میں جذب و کشش کی کیفیت کے باعث ہر ذرہ اپنے برتر کی طرف بڑھ رہا ہے یا برتر،کمتر کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ ترقی کے اس سفر کی وجہ فراق ہے، اپنی اصل سے دوری انسان کو بیقرار اور متحرک رکھتی ہے۔انسانی سطح پر فراق میں شدت کا مطلب یہ ہے کہ جدوجہد اور طلب کا سفر رکا نہیں بلکہ زیادہ زور و شور سے جاری ہے۔ اس سطح کی آزمائش اپنے من میں خیر اور شر کی قوتوں میں سے خیر کو اپنا کر لطافت کا حصول ہے ۔ رومی کے نزدیک فراق سے جڑا عشق کا سفر جو جمادات سے شروع ہوا تھا ظاہری موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ لیکن چونکہ اس مقام پر مٹی اور مادی جسم نہیں رہتا اسلئے انسان اسکا ادراک کرنے سے قاصر ہے۔موت خاتمہ نہیں اسی طرح اگلے درجے میں انتقال ہے جیسے جمادات سے انسان تک ہوتا رہا۔ اسلئے صوفی موت سے خوفزدہ نہیں ہوتا کیونکہ اسے خبر ہوتی ہے یہ اگلی اور اعلیٰ منزل میں انتقال ہے۔ نظریہ فراق کو سمجھنےکیلئے اپنے من میں جھانکنے اور وجدانی آنکھ سے کائنات کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین