• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ مُلک میں آخر کار عام انتخابات ہو ہی گئے اور اس کے بعد صرف بارہ دنوں میں مخلوط حکومت کا بھی اعلان سامنے آگیا۔مخلوط حکومت میں مُلک کی بڑی جماعتیں مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ شامل ہیں۔ انتخابات سے قبل اور بعد میں مایوسی پھیلائی جا رہی تھی کہ خدا نخوانستہ مُلک ڈوب چُکا ہے اور بدترین انتشار سر پر ہے، لیکن اللہ کا شُکر ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ساری افواہیں ایک ایک کرکے دَم توڑ گئیں۔

امریکا جیسے مُلک میں آج تک ٹرمپ کو گلہ ہے کہ اُن کی فتح چوری کی گئی، جب کہ بھارت میں کانگریس پارٹی کا رہنما اور نہرو خاندان کا چشم و چرغ حال ہی میں جیل بھگت کر آیا ہے، یہ سب سیاست کا حصّہ ہے، تاہم اصل بات یہ ہے کہ سیاسی اختلافات کے نتیجے میں مُلک کو ترقّی کی راہ سے نہیں ہٹنا چاہیے۔امریکا اور بھارت میں تو ایسا ہی ہوا کہ وہاں سیاسی دشمنی، مُلک دشمنی نہیں بنی۔خوشی کی بات یہ ہے کہ مُلک کی بڑی جماعتوں کے رہنماؤں نے سیاسی بالغ نظری کا ثبوت دیا اور جوڑ توڑ کے عمل سے گزر کر، جو کہ مخلوط حکومت سازی میں معمول کا حصّہ ہے، حکومت بنا لی۔ یہ سطور تحریر کرتے وقت تک وفاق، پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں نئی حکومتوں کے خدّ وخال واضح ہوچُکے ہیں۔

اگر دیکھا جائے، تو مخلوط حکومتیں کوئی انوکھی چیز ہیں اور نہ ہی یہ کسی انتشار یا افراتفری کی نشان دہی کرتی ہیں، بلکہ یہ جمہوری ممالک میں ایک عام سیاسی عمل ہے۔دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے اسلامی مُلک، انڈونیشیا میں14فروری کو صدارتی اور اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔غیر سرکاری نتائج تین دن میں مکمل ہوئے، جب کہ الیکشن کمیشن حتمی نتائج کا سرکاری اعلان ایک ماہ بعد کرے گا۔وہاں بھی مخلوط حکومت بن رہی ہے، جو اکتوبر میں مکمل ہوگی۔ صدر دس اکتوبر کے بعد حلف لیں گے۔اِسی طرح جرمنی جیسے مُلک میں چانسلر مرکل ہمیشہ مخلوط حکومت بناتی رہیں، اُنہیں تین، چار ماہ اس پراسس سے گزرنے میں لگتے۔

مگر ہمارے ہاں نہ جانے کیوں پولنگ کے اختتام کے ساتھ ہی سے کائونٹ ڈائون شروع ہوجاتا ہے۔غالباً اِس بے چینی کی ایک وجہ ماضی کے کچھ تلخ تجربات بھی ہیں، جب کہ بہت سے ناقدین اِس ضمن میں میڈیا کے ایک حصّے کی جانب سے سنسی خیزی کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ انتخابی عمل میں بے ضابطگیوں یا کہیں غیر قانونی ووٹنگ کے امکانات رَد نہیں کیے جاسکتے، لیکن شکایات کے ازالے کے لیے احتجاج کا راستہ اپنانے کی بجائے مناسب فورمز موجود ہیں، جن سے انصاف کے حصول کے لیے رجوع کیا جاسکتا ہے۔

بہرحال، حکومت سازی کے معاملات مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں اور اب کارکردگی دِکھانے کا وقت آ گیا ہے۔جمہوری ممالک میں الیکشن اِس لیے نہیں ہوتے کہ ان کے بعد بھی ہر وقت سڑکوں پر سیاست یا احتجاج ہوتا رہے۔اب پانچ سال کام کرنے اور کام کرنے دینے کا وقت ہے۔یہ امتحان حُکم ران جماعتوں کا تو ہے ہی، کیوں کہ اُنھیں ہر صُورت ڈیلیور کرنا پڑے گا، لیکن عوام کی بھی کڑی آزمائش ہے کہ وہ مُلک کی تعمیر و ترقّی میں کس طرح حصّہ بنتے ہیں۔اچھی بات یہ ہے کہ مُلکی آبادی کا ساٹھ فی صد نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو چاہیں، تو مُلک و قوم کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔

ووٹ ڈال دیا، حکومت وجود میں آگئی، اب کام کر کے دِکھائیں۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو نہ صرف نوجوانوں کی رہنمائی کرنی ہوگی، بلکہ ایسی پالیسیز بھی متعارف کروانی ہوں گی، جن پر عمل سے بدحالی، خوش حالی میں بدل سکے۔کوئی شک نہیں کہ ماضی میں بہت غلطیاں ہوئیں اور اوپر سے لے کر نیچے تک، سب ہی کسی نہ کسی حد تک قصوروار بھی ہیں،تاہم، اب ان غلطیوں کو دُہرانے کی بجائے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔یاد رہے، رواں برس دنیا کے بہت سے ممالک میں انتخابات ہو رہے ہیں۔ 

انڈونیشیا اور بنگلا دیش جیسے بڑی آبادی کے ممالک میں الیکشن کا عمل مکمل ہوچُکا ہے، اب برطانیہ اور امریکا جیسی فرسٹ ورلڈ ریاستوں میں انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ بھارت کا الیکشن، جو مئی سے شروع ہوگا، ہمارے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ بھارت کے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے پاکستان میں سیاسی تقسیم کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہاں کے انتخابی عمل میں بہت زیادہ مداخلت کی۔

سابقہ فوجی افسران، سیاسی اور اکیڈمک ماہرین الیکشن کی شفافیت، حکومت سازی اور دیگر معاملات پر پاکستانی نوجوانوں کو ورغلانے میں کوشاں رہے اور ہمارے میڈیا، خاص طورپر غصّے سے بپھرے سوشل میڈیا کو منفی راستوں پر موڑنے کی بھی کوشش کی گئی۔ بدقسمتی سے اُنھیں کچھ کام یابی بھی ملی کہ ہمارے نوجوان اُن کے بہکاوے میں آکر اپنے ہی اداروں کے سامنے آگئے۔ پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کچھ سوالات ایسے تھے، جو مختلف ٹی وی چینلز، وی لاگز اور پوڈکاسٹس میں تواتر سے پوچھے گئے، جن کا لب لباب یہ تھا کہ’’ پاکستانی قوم ترقّی کی راہیں کھو بیٹھی ہے اور اس کا نوجوان غصّے میں ہے، جس سے اب کسی خیر کی توقّع نہیں کی جاسکتی۔‘‘

اسے مایوسی کی ایک خاص قسم کہا جاتا ہے، جو پراپیگنڈے کے ذریعے پھیلائی جا رہی ہے۔ افسوس، ہمارے میڈیا ماہرین نے اِس سازش پر غور کی زحمت کی اور نہ ہی ہماری جامعات کے اعلیٰ دماغوں نے اِس طرف توجّہ دینا مناسب سمجھا، حالاں کہ ٹرمپ کے پہلے الیکشن کے بعد چین، روس اور دوسرے ممالک کی سوشل میڈیا دخل اندازی پر امریکا، برطانیہ اور یورپ میں بہت کام ہوا اور اب بھی ہو رہا ہے۔ 

پتا نہیں کیوں، ہم اِتنے مدہوش ہوجاتے ہیں کہ اپنے عام فرائض تک سے غافل رہتے ہیں۔ماہرین کو غور کرنا چاہیے کہ آج کی جدید دنیا میں میڈیا کہاں سے کہاں پہنچ چُکا ہے اور یہ کہ آرٹیفشل انٹیلی جینس کیا کیا گُل کِھلا رہی ہے۔اگر ہم ذرا سی بھی توجّہ دیں، تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنے ہوجائے گا۔ پھر یہ کہ ہمارے مُلک پر اثرانداز ہونے والے بین الاقوامی سیاست کے رنگ ڈھنگ بھی ہماری توجّہ کے متقاضی ہیں۔ یہ کتنی عجیب اور بے تکی بات ہے کہ امریکا یا برطانیہ جب غزہ پر کوئی بیان دیتے ہیں، تو وہ ہمارے نزدیک ظالم قرار پاتے ہیں، لیکن جب وہ پاکستان کے انتخابی عمل پر کوئی منفی کمنٹس کریں، تو ہم دن رات اُنھیں دُہرا دُہرا کر مُلکی ساکھ ملیامیٹ کرکے خوشیاں مناتے ہیں۔

چین ہمارا سب سے گہرا اور بہترین دوست ہے۔اُس کی سرکاری پریس ایجینسی کے مطابق، چین نے پاکستان کو کام یاب الیکشن کروانے پر مبارک باد دی۔ترجمان کا کہنا تھا کہ’’ چین، پاکستان کے لوگوں کے انتخاب کا احترام کرتا ہے اور اُمید کرتا ہے کہ سیاسی جماعتیں، سیاسی اور سماجی اتحاد برقرار رکھیں گی اور مُلکی ترقّی کے لیے بھرپور جدوجہد کریں گی۔‘‘امریکی ترجمان نے بیان دیا کہ’’ اتحادی حکومتیں بنانے کا عمل پاکستان کا اندرونی عمل ہے اور امریکا اس میں کوئی دخل نہیں دیتا۔‘‘دولتِ مشترکہ پہلے ہی الیکشن پر اطمینان کا اظہار کر چُکی ہے۔اس کے باوجود، جنھیں دھاندلی یا کسی بے ضابطگی کی شکایت ہے، تو وہ احتجاج کی راہ تَرک کرکے متعلقہ فورمز سے رجوع کرسکتے ہیں۔

ہمارے لیے صرف اِتنی سی بات اہم نہیں کہ ہم کہاں کہاں تقسیم ہیں اور کہاں کہاں متحد، ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج مُلکی معیشت کی بحالی ہے۔وزارتِ خزانہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان کو درپیش آٹھ بڑے چیلنجز کی نشان دہی کی گئی ہے، جن میں مائکرو اکنامکس، توازن، بڑھتا ہوا قرضہ، خسارے میں جاتی سرکاری کمپنپنز، ماحولیاتی تنزّلی، پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ میں خطرات، صوبائی مالیاتی ڈسپلن اور گورنینس کے چیلنجز شامل ہیں۔وزارتِ خزانہ کی اِس سال کی مالیاتی رِسک اسٹیٹ منٹ کے مطابق، حالیہ برسوں میں افراطِ زر میں اُتار چڑھائو رہا اور روپے کی قدر میں خاطر خواہ کمی ہوئی، منہگائی بڑھنے کی ایک وجہ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ تھا، قرضوں میں سود کی بھاری ادائی بھی مالی خسارے میں کمی کے راستے کی بڑی رکاوٹ ہے۔

معاشی استحکام اور بہتری کے لیے وزارتِ خزانہ نے تین طرح کی صُورتِ حال کی پیش گوئی کی۔ ایک یہ ہے کہ نیٹ ریوینیو جی ڈی پی کا 6.7 فی صد، وفاقی اخراجات، جی ڈی پی کا9.7 فی صد، جب کہ مالی خسارہ، جی ڈی پی کا3.7 فی صد تک رہے گا۔دوسری پیش گوئی کے مطابق، نان ٹیکس ریوینیو میں پچاس فی صد تک کمی ہوسکتی ہے۔نیٹ وفاقی ریوینو میں5.3 تک کی کمی کا خدشہ ہے۔ وفاقی اخراجات، جی ڈی پی کا10.6 فی صد رہیں گے۔ مالی خسارہ، جی ڈی پی کے لحاظ سے5.4 فی صد تک بڑھے گا۔ 

تیسری پیش گوئی کے مطابق، اگر2026 ء تک اقتصادی شرحِ نمو0.5 فی صد سے کم رہتی ہے، تو وفاقی ریونیو، جی ڈی پی کے لحاظ سے 7.1 ، وفاقی اخراجات11 فی صد اور وفاقی مالی خسارہ 3.9 فی صد متوقّع ہے۔ گزشتہ چار برسوں میں مجموعی حکومتی قرضہ40.8 فی صد رہا، مختصر مدّت کی ری فناننسنگ سے چیلنجز بڑھے اور اقتصادی ترقّی کی رفتار سُست رہی۔مالی خسارے میں اضافہ ہوا، جس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی آئی۔

آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشیائی ترقّیاتی بینک اور دیگر خود مختار ادارے وقتاً فوقتاً پاکستانی حکومت اور عوام کی توجّہ ان کی گرتی معیشت کی طرف مبذول کرواتے رہتے ہیں، مگر یہ تو ہماری اپنی وزارتِ خزانہ کی رپورٹ ہے۔ہمیں اب جاگ جانا چاہیے کہ لمبی تانے رکھنے کے اثرات نہایت بھیانک ثابت ہوسکتے ہیں۔ ہمیں یہ بتاتے ہوئے ذرا سی بھی خوشی نہیں ہو رہی کہ بھارت کی محض ایک کمپنی، ٹاٹا کی مجموعی آمدنی ہماری قومی معیشت سے آگے نکل گئی ہے۔ 

شاید یہ اعداد وشمار دیکھ کر ہی قوم کا اجتماعی شعور بے دار ہوجائے۔ اور اے کاش! اِس موقعے پر ہمارے نوجوان بے مقصد سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہوکر مُلک وقوم کی تعمیرو ترقی کے لیے میدانِ عمل میں کود پڑیں۔شاید تارکینِ وطن کو بھی، جو ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں، اندازہ ہوجائے کہ سیاست سے زیادہ معیشت میں حصّہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔اِسی طرح کی سوچوں سے نظام بدلے گا اور قوم حقیقی معنوں میں انقلاب سے مستفید ہوسکے گی۔حُکم ران جماعتوں کو اب پوری تیاری سے میدان میں اُترنا چاہیے کہ یہ جیت اور ہار کا مسئلہ نہیں، بلکہ قومی بقا کا سوال ہے۔ 

تنقید بہت ہوچکی اور سیاسی اختلافات کی بنیاد پر بہت لڑبِھڑ چُکے، اب سب کو غور کرنا ہوگا کہ آخر ہماری پالیسیز میں ایسی کیا کمی رہ گئی، جس سے قوم، بالخصوص نوجوانوں کو ہم یہ باور کروانے میں ناکام رہے کہ اُن کا اصل مسئلہ کیا ہے۔ ہماری قومی قیادت یہ شعور بے دار کرنے میں کیوں کام یاب نہ ہوسکی کہ قوم کے لیے اس کی معاشی بحالی کس قسم کی سنگین آزمائش بن چُکی ہے۔الیکشن جیت کر حکومت بنانے والوں کے لیے جشن منانے کا موقع ہے اور نہ ہی ہارنے والوں کے لیے احتجاج کی راہ اختیار کرنا مناسب ہوگا۔کام ہے تو بس ایک ہی کہ سب کو مُلک وقوم کے لیے مِل جُل کر کام کرنا ہوگا۔

ہم نے بارہا جاپان، جرمنی، کوریا، سنگاپور، تُرکی اور دیگر ممالک کی مثالیں پیش کیں کہ وہ کس طرح ترقّی کی راہ پر گام زن ہوئے۔ہم میں سے بہت سے لوگ خود اُن ممالک میں جاکر تبدیلی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چُکے ہیں۔حکومت کے لیے اب ایک لمحے کے سستانے کی بھی گنجائش نہیں اور نہ ہی بیان بازیوں سے کچھ ہوگا، اُسے اپنا فوکس صرف اور صرف معاشی بحالی پر مرکوز رکھنا ہوگا۔

نیز، عوام اور سیاسی جماعتوں کو جہاں حکومت پر کڑی نظر رکھنی ہے، وہیں کُھلے دل سے اُس کا ہاتھ بھی بٹانا ہے۔پارلیمان میں بے شک جتنی چاہے تنقید کرلیں، میڈیا بھی بھرپور احتساب کرے، لیکن معیشت کی بحالی اور ترقّی کی سمت کبھی بھی نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دیں۔