• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر آپ تاریخ کے طالب علم ہیں اور سیروسیاحت کے متوالے ہیں تو پھر کراچی کی جدید تاریخ اور جغرافیہ کا مطالعہ کرنے کے بعد کراچی کا رخ مت کیجئے گا۔آپ چکراجائیں گے۔آپ گھبرا جائیں گے۔ گریبان چاک کرکے آپ اپنے بال نوچ ڈالیں گے۔ آپ کی سمجھ میں نہیں آئے گا کہ آپ اپنے ملک کے کسی شہر کی سڑکوں اور گلی کوچوں میں بھٹک رہے ہیں یا کسی مشرق وسطیٰ، ایران یا ترکی کے کسی شہر میں بھٹک رہے ہیں۔ آپ کی سمجھ میں کچھ نہیں آئے گا۔ ویسے بھی بہت سی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم پاکستانیوں کی سمجھ کا خانہ خالی ہے۔ ہم سب سمجھتے ہیں، بوجھتے ہیں۔ مگرکیا کریں کہ 76ستتر برس کے دوران سیاستدانوں کی اکھاڑ پچھاڑ دیکھ کر ہماری اپنی مت ماری گئی ہے۔ سات دہائیوں سے ہم سیاسی ڈرامہ دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ مگر کیا مجال کہ آج تک پس پردہ موسیقی دینے والے کسی ایک میوزک ڈائریکٹر کے نام اور کام کا پتہ چل سکا ہو۔ کٹھ پتلی سیاستدانوں کی گردن سے بندھی ہوئی ڈور دراصل کس کے ہاتھ کی انگلیوں کے بس میں ہے، اس بارے میں ہم بڈھے کھوسٹ کچھ نہیں جانتے۔ حالانکہ ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ کٹھ پتلی سیاست دانوں کی گردن سے بندھی ڈور کا دوسرا سرا کس کس کے ہاتھ میں ہے۔جہاں تک میری اپنی بات ہے، جب پاکستان بناتھا، تب تک میں اپنا بچپن بہت پیچھے چھوڑ آیا تھا ۔ پاکستان جب بناتھا، تب میں بچہ نہیں تھا۔ اس لیے میں نہیں جانتا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی افتتاحی تقریر نشر ہونے کے بعد جب شائع کرنے کے لیے اخبارات کو بھیجی جارہی تھی تب قائد اعظم کی تقریر کس نے ایڈٹ کی تھی، یعنی کس نے قائد اعظم کی تقریر میں کانٹ چھانٹ کی تھی۔ اس نوعیت کی باتیں پاکستان کابچہ بچہ جانتا ہے۔ بڑے بوڑھے کچھ نہیں جانتے۔ آپ کو حیران پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ راز کی بات ہے۔ میرے علاوہ گنتی کے بوڑھے کھوسٹ جو رخت سفر باندھ کر بیٹھے ہیں، اس راز سے واقف ہیں۔

میں اس راز سے پردہ اٹھاتا ہوں۔میں آپ کو بتا تاہوں کہ بچے جب بچے ہوتے ہیں تب وہ جانتے ہیں کہ کٹھ پتلی سیاستدانوں کی گردن سے بندھی ہوئی ڈور کا دوسرا سرا کس کے ہاتھ میں ہے، اور و ہ ہاتھ کس کا ہاتھ ہے۔ اب میں راز کی بات سے پردہ اٹھاتا ہوں۔ بات کچھ اس طرح ہے کہ بچے جب بچے نہیں رہتے، اور جوان ہوجاتے ہیں، تب وہ بھول جاتے ہیں یا دانستہ بھلا دیتے ہیں کہ کٹھ پتلی سیاستدانوں کی گردن میں پڑی ہوئی ڈور کا دوسرا حصہ کس کے ہاتھ میں ہے۔ یادرہے کہ گردن میں پڑی ہوئی ڈور پھانسی کے پھندے سے کم نہیں ہوتی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پھانسی کا پھندا جب گلے میں پڑ جاتا ہے، تب آپ لکڑی چبوترے پر کھڑے ہوتے ہیں۔ آپ کو کالا ٹوپ پہنایا جاتا ہے تاکہ پھانسی گھاٹ میں موجود مجسٹریٹ، ڈاکٹر، اعلیٰ پولیس حکام، اور جیل کے بے تاج بادشاہ سپرنٹنڈنٹ جیل کو آپ کا نورانی چہرہ پھانسی پر لٹک جانے کے بعد دکھائی نہ دے۔ بڑا ہی بھیانک منظر ہوتا ہے وہ ۔نرم دل اور رحم دل جیل حکام، ڈاکٹر اور مجسٹریٹ صاحب دل خراش منظر دیکھنے کی تاب نہیں رکھتے۔ دھاڑیں مار کر روپڑتے ہیں اور بیہوش ہوجاتے ہیں۔

مگر جب سیاست کی سرحد نامی ڈرامہ میں آپ کے گلے میں ڈور باندھی جاتی ہے تب آپ کسی پھانسی گھاٹ کے چبوترے پر کھڑے ہوئے نہیں ہوتے۔ آپ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتے ہیں۔ نیچے سے اقتدار کی کرسی نکل جانے کے بعد آپ زندگی سے ہاتھ نہیں دھو بیٹھتے۔ آپ اقتدار سے محروم ہوجاتے ہیں۔ بچوں کو یہ تمام باتیں بہت پہلے سمجھ میں آجاتی ہیں۔ وہ جوان ہونے سے بہت پہلے عقل کے ناخن لے لیتے ہیں اور بچپن میں سنی سنائی باتیں بھول جاتے ہیں۔ جو بچے زیادہ معصوم ہوتے ہیں اور بچپن کی باتیں بچپن میں چھوڑ کر آنے کی بجائے اپنے ساتھ جوانی کی دہلیز تک لے آتے ہیں وہ بچے غائب ہوجاتے ہیں وہ کس طرح اور کیسے غائب ہوجاتے ہیں، کوئی کچھ نہیں جانتا۔ ایک مرتبہ موت کا فرشتہ ایک نوجوان کی روح قبض کرنے اور اسکو ابدی نیند سلانے کے لیے زمین پر آیا تھا۔ تب تک نوجوان غائب ہوچکا تھا۔ فرشتے نے نوجوان کو بہت تلاش کرنے کی کوشش کی، سپریم کورٹ کے دروازے کھٹکھٹائے مگر بے سود، موت کے فرشتہ کو نوجوان نہیں ملا۔ وہ مایوس لوٹ گیا۔ اب آپ سمجھ گئے ہونگے کہ بچے جب جوان ہونے لگتے ہیں تب عقل کے ناخن کیوں لیتے ہیں اور کیوں سب کچھ بھلا بیٹھتے ہیں۔

میں آپ سے عرض کررہا تھا کہ جب بھی آپ سیروسیاحت کے لیے کراچی تشریف لائیں تب آپ کورے کاغذ کی طرح آئیں۔ کراچی کو کراچی میں آنے والوں نے جس طرح اکھاڑا اور پچھاڑا ہے، اسی کیفیت میں کراچی کو دیکھیں یہ وہ کراچی نہیں ہے، جس کراچی کو انیس سو سینتالیس میں انگریز نے چھوڑا تھا۔

تازہ ترین