یہ زیادہ دور کی بات نہیں جب 10اپریل 2022 میں ایم کیو ایم پاکستان نے بانی تحریک انصاف کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں حکومتی بینچوں کو چھوڑ کر اپوزیشن کا ساتھ دیا جس کے بعد سے ایم کیو ایم پاکستان اور مسلم لیگ ن کے درمیان نہ صرف اتحاد ہوا بلکہ تحریری معاہدہ بھی ہوا۔
اتحاد کی کہانی اس وقت زور پکڑ گئی جب میاں نواز شریف لندن سے پاکستان پہنچے اور پھر ایم کیو ایم پاکستان کے وفد سے بھی ملاقات کی، اسی ملاقات میں دونوں جماعتوں نے ایک بار پھر نہ صرف انتخابی اتحاد کا اعلان کیا بلکہ انتخابات کے بعد بھی اس اتحاد کو قائم رکھنے کا اعادہ کیا۔
پاکستان میں 8 فروری 2024 کو انتخابات ہوتے ہیں تو ایم کیو ایم پاکستان کراچی اور حیدرآباد سے قومی اسمبلی کی 17 نشستیں حاصل کرتی ہے، نتائج آتے آتے یہ اندازہ بخوبی ہوگیا تھا کہ اس بار کی حکومت مخلوط ہوگی، اس لیے ایم کیو ایم پاکستان کی 17 نشستیں اہم ہوگئیں اور مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان اس وقت تک مذاکرات مثبت طریقے سے آگے بڑھتے رہے جب تک پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن کے ساتھ حکومت بنانے پر حتمی فیصلہ نہیں کیا تھا۔
مسلم لیگ ن ایک طرف پیپلز پارٹی سے تو ایک طرف ایم کیو ایم پاکستان سے علیحدہ علیحدہ مذاکرات کررہی تھی لیکن باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ اچانک ایم کیو ایم کے لیے مسلم لیگ ن کا رویہ تبدیل ہوگیا جس روز پیپلز پارٹی سے مسلم لیگ ن کے حتمی مذاکرات ہونے تھے اس سے ایک روز قبل ایم کیو ایم پاکستان کے وفد کو رات کے کسی پہر میٹنگ کے لیے بلایا گیا۔
ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کی کمیٹی ممبران کا ماننا ہے کہ جب ایم کیو ایم کا وفد وہاں ملاقات کے لیے گیا تو ایسا لگا کہ کوئی ملاقات کیلئے تیار ہی نہیں ہے اور جیسے کسی کو ملاقات کے لیے بلایا ہی نہیں گیا ہو، ن لیگ کے وفد کا ان سے ملاقات کرنے کا کوئی موڈ نہیں تھا لیکن صرف اس لیے ملاقات کر لی کہ وہ پہلے سےایم کیو ایم پاکستان سے بات چیت کررہے تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کے وفد نے 40 سے 45 منٹ ملاقات کی اور ایم کیو ایم کو بتایا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے وفد کے بعد ان کی پیپلز پارٹی سے پھر ملاقات ہونی ہے، جب ایم کیو ایم نے دریافت کیا کہ آپ کی پیپلز پارٹی سے کیا بات طے ہوئی تو مسلم لیگ ن نے جواب دیا کہ تمام چیزیں خفیہ ہیں اور ان سے لکھ کر بات ہورہی ہے اس لیے وہ بتا نہیں سکتے۔
ذرائع نے بتایا کہ اس پر مسلم لیگ ن کے وفد نے کہا کہ پھر بھی ان خفیہ باتوں میں سے دو باتیں ایم کیو ایم کو بتا دیتے ہیں پیپلز پارٹی والے کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان کا مینڈیٹ جعلی ہے اور دوسری بات یہ کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو ملا کر حکومت بنانے کے لیے نمبرز پورے ہوگئے ہیں اس لیے ایم کیو ایم پاکستان کو اتحاد سے باہر نکالیں ان کی ضرورت نہیں ہے۔
ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان کو بتایا گیا کہ پیپلز پارٹی کا اصرار ہے کہ انہیں ایم کیو ایم کی ضرورت نہیں ہے، ایم کیو ایم نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا اور ایم کیو ایم کے جو مطالبات تھے وہ انہوں نے مسلم لیگ ن کو تحریری طور پر دے دیے، اس ملاقات میں مسلم لیگ ن نے ایم کیو ایم والوں سے کہا کہ آپ لوگ ابھی رکیں اور جائیں نہیں کیونکہ ہوسکتا ہے آپ لوگوں کی ساری چیزوں کو لیکر شہباز شریف اور نواز شریف سے ملاقات کے لیے لاہور جانا پڑے۔
ذرائع کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان والے اس رات وہیں اسلام آباد رک گئے اور دوسرے پورے دن مسلم لیگ ن کی جانب سے کال کا انتظار کرتے رہے اور کوئی کال نہیں آئی اور ایم کیو ایم کمیٹی کو پتا چلا کہ پیپلز پارٹی سے معاملات چل رہے ہیں، جس روز ایم کیو ایم کال کا انتطار کرتی رہی اسی روز رات بارہ بجے انہوں نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو مشترکہ پریس کانفرنس کرکے ساتھ چلنے کا اعلان کرتے ہوئے دیکھا۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ ایم کیو ایم پہلے سمجھی انہیں یہ بتایا تک نہیں گیا تاہم کمیٹی کے کچھ ممبران نے اپنے میسجز دیر سے دیکھے اور مسلم لیگ ن کے رکن نے میسج کر کے انہیں پہلے مطلع کیا ہوا تھا، اس لیے پریس کانفرنس دیکھنے کے بعد فوری کراچی روانگی کا جو ایم کیو ایم کا پلان تھا اسے کینسل کردیا گیا۔
ذرائع کے مطابق اسی رات دیر سے صبح ساڑے گیارہ بجے مسلم لیگ ن کی کمیٹی سے ملاقات کا میسج آیا اور ایم کیو ایم پاکستان والے ملنے گئے، اس پر ایم کیو ایم پاکستان نے پچھلی میٹنگ کی دونوں باتوں یعنی کہ ان کا مینڈیٹ ہی ٹھیک نہیں ہے اور ان کی ضرورت نہیں اس پر مسلم لیگ ن سے گلا کیا کہ ان باتوں سے انہیں کافی تکلیف ہوئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان نے ملاقات میں کہا اس وقت ان کے لیے آئیڈیل پوزیشن ہے اور مسلم لیگ انہیں آزاد کرے تو وہ ابھی باہر نکل کر اپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان کرتے ہیں کیونکہ اس حکومت کے ساتھ بیٹھنا کون چاہتا ہے۔
ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کے وفد کا ملاقات میں کہنا تھا کہ اگر ایم کیو ایم پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اپوزیشن میں جاکر بیٹھتی ہے تو وہ 24 گھنٹے میں ملک کی مشہور ترین جماعت بن جائے گی کیونکہ جب مولانا فضل الرحمان اور پی ٹی آئی مل سکتے ہیں تو ایم کیو ایم تو پھر پی ٹی آئی سے مل ہی سکتی ہے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ لاہور شہباز شریف سے ملاقات کے لیے جانے سے پہلے ایم کیو ایم پاکستان کی گورنر شپ کے حوالے سے مسائل شروع ہوگئے اس پر ایم کیو ایم نے ایک میٹنگ میں کہا تھا کہ اس پر تو کوئی بحث ہی نہیں ہے یہ بات تو پہلے سے ہی طے ہے پھر ایم کیو ایم پاکستان لاہور چلی گئی۔
ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان کی لاہور میں ہونے والی اس روز کی پہلی میٹنگ اچھی نہیں رہی کیونکہ اس ملاقات میں مسلم لیگ ن نے زبانی تو یہ بات نہیں کہ لیکن ان کے رویے اور باتوں سے ایم کیو ایم کے وفد کو یہ تاثر ملا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان آنکھ بندھ کر کے مسلم لیگ ن کو ووٹ دے دے اور ابھی کوئی بات نہ کرے۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ اس ملاقات میں مسلم لیگ ن متحدہ کی کوئی بات سننے کے لیے تیار ہی نظر نہیں آتی تھی پھر جب وہاں سے ایم کیو ایم کی مذاکراتی کمیٹی اٹھنے لگی تو مسلم لیگ ن کی جانب سے انہیں روکا گیا اور ایم کیو ایم پاکستان کمیٹی کی بک فلائٹس کینسل کرائی گئیں۔
ذرائع کے مطابق اسی روز رات 9 بجے دوبارہ دونوں جماعتوں کی ملاقات ہوتی ہے، اس ملاقات کو ایم کیو ایم پاکستان پچھلی ملاقاتوں کی نسبت مثبت ملاقات کہتی ہے کیونکہ اس مذاکراتی کمیٹی کا ماننا ہے کہ اس ملاقات میں ان کی بات سنی گئی ہے اور مسلم لیگ ن نے ایم کیو ایم پاکستان کی کئی باتوں سے اصولی اتفاق کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے وفد نے اس ملاقات میں مسلم لیگ ن کو کہا کہ ان کا پہلا مطالبہ آئینی ترمیم ہے پھر وزارتیں ہیں اور ایم کیو ایم کو ایسی وزراتیں نہیں چاہئیں جہاں وہ کراچی سندھ کے دیگر شہروں میں عوام کو کچھ بھی ڈیلیور نہ کر پائیں، ایم کیو ایم نے اس ملاقات میں مطالبہ کیا کہ انہیں وفاقی حکومتوں کہ وہ محکمے چاہئیں جن کے کراچی میں دفاتر ہیں جیسے ڈی ایس ریلوے، پی ڈبلیو ڈی، واپڈا اور اس طرح 22 سے 23 محکمے ہیں اور ایم کیو ایم کو ان محکموں کے عہدوں پر اپنے لوگ چاہئیں۔
ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم چاہتی ہے کہ آئینی ترامیم پر مسلم لیگ ن ان کے ساتھ آجائے اور ایم کیو ایم وہ بل قومی اسمبلی میں جمع کرا دے اور وہ اس کی منظوری کے لیے لابنگ شروع کرے اور اس سلسلے میں تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کے پاس جائے۔
ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان نے مسلم لیگ ن سے ملاقات میں کہا تھا کہ ایم کیو ایم تو پی ٹی آئی کے ساتھ حکومت میں تھی اور مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی والے جیلوں میں جانے والے تھے لیکن ایم کیو ایم نے اپنے سات ووٹوں سے اس وقت ساتھ دیا تھا، اب اگر وہ 17 نشستیں لے کر آئے ہیں اور مسلم لیگ ن ان کے ہاتھ باندھ کر پیپلز پارٹی کے سامنے ڈال دے یہ مناسب نہیں ہے۔
ذرائع کے مطابق اپنے مینڈیٹ کو جعلی کہنے پر بھی متحدہ وفد نے ان سے شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن سے اصرار کررہی ہے کہ سندھ کی گورنر شپ ایم کیو ایم کی نہ ہو اور اگر ہو بھی تو وہ نام سامنے آئے جو پیپلز پارٹی کی خواہش کے مطابق ہو اور اس سلسلے میں ایک نام ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو بتایا بھی گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ان جماعتوں کے ڈکٹیشن پر نہیں چلیں گے اور پارٹی سمجھتی ہے کہ ایک ایسی حکومت کا حصہ بن جائیں جس سے لوگ ابھی سے ناپسندیدگی کا اظہار کررہے ہیں اور پھر ملے بھی کچھ نہ کہ عوام کو ڈیلیور کرسکیں تو پھر تو حشر بہت ہی برا ہوگا۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن سے مذاکرات کے حوالے سے کنوینر ایم کیو ایم پاکستان ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی سربراہی میں رابطہ کمیٹی کا گزشتہ دنوں اجلاس بھی ہوا جس کے بعد ترجمان ایم کیو ایم پاکستان نے اپنے علامیے میں کہا کہ اجلاس میں انتخابات کے بعد کی صورتحال اور پاکستان مسلم لیگ ن سے ہونے والے مذاکرات پر غور کیا گیا۔
ترجمان ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ اجلاس میں وفاق و صوبے کی موجودہ سیاسی صورتحال پر اراکین رابطہ کمیٹی نے مختلف تجاویز دیں۔ ترجمان کے مطابق ملک میں جمہوریت کے استحکام اور بنیادی جمہوریت کے حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔