2024 کے الیکشن کے بعد سندھ میں حکومت سازی کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔ 1970کے بعد پاکستان میں بارہ عام انتخابات ہوئے جن میں پاکستان پیپلز پارٹی نے گیارہ انتخابات میں حصہ لیا جب کہ1985 کے غيرجماعتي الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔ سندھ میں ان گیارہ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت بن کر ابھری۔
1990، 1997 اور 2002 کے انتخابات میں اکثریتی جماعت ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کو سندھ میں حکومت نہ بنانے دی گئی۔ 2024 کے انتخابی نتائج میں سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی آٹھویں اور مسلسل چوتھی حکومت ہے، سید مراد علی شاہ مسلسل تیسری بار سندھ کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔
2024 میں، پاکستان پیپلز پارٹی نے صوبے سے ریکارڈ نشستیں جیت کر حکومت بنائی ہے، جب کہ این اے 215تھرپارکر سے قومی اسمبلی کی جنرل نشست سے مہیش کمار ملانی اور پی ایس 45میرپورخاص سے ہری رام کشوری لال (دو ہندو) پیپلز پارٹی کی جنرل نشست سے کامیاب ہوئے۔ جو پاکستان جیسے مذہبی ملک میں ایک اچھی خبر ہے۔ اس کے ساتھ ایک مسیحی رکن انتھونی نوید سلہوترا کو سندھ اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر منتخب کروایا گیا ہے ۔یہ بھی یاد رہے کہ 1937میں سندھ کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے پہلے ڈپٹی اسپیکر بھی ہندو کماری جيٹھ تلسی داس سپاہملانی تھی ۔
کانگریس پارٹی سے تعلق رکھنے والی سپاہملانی ، 1938 سے 1946تک سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر رہیں۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس سے پہلے سندھ اسمبلی کے اسپیکر دیوان بھوج سنگھ کا تعلق سکھر شہر سے تھا اور اب منتخب سندھ اسمبلی کے اسپیکر اويس قادر شاہ کا تعلق بھی سکھر شہر سے ہے۔
2024 کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی نے صوبہ سندھ سے تمام انتخابات سے زیادہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل کی ہیں، اس کے باوجود کہ اس الیکشن میں تمام قوم پرست، مذہبی جماعتوں اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (GDA) نے مل کر پیپلز پارٹی کے امیدواروں سے مقابلہ کیا ، اور کراچی اور حیدرآباد کے علاوہ صوبائی اسمبلی کی صرف دو نشستیں حاصل کرسکے، جبکہ اسی اتحاد جے ڈی اے کو 2018 کے الیکشن میں دو قومی اسمبلی اور 11 صوبائی اسمبلی کی نشستیں ملی تھیں۔
ان میں شکارپور سے منتخب ہونے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی غوث بخش مہر اور انکے صاحبزادے شہریار مہر، گھوٹکی سے علی گوہر خان مہراس الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتے، 2018 میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے رفیق بھانبھن پیپلز پارٹی کے امیدوار شیراز راجپر سے ہار گئے۔ ۔ تھرپارکر سے عبدالرزاق راھمون ، لاڑکانہ سے معظم عباسی، نوشہرو فیروز سے غازی خان جتوئی، بدین سے حسنین مرزا، سانگھڑ سے شمس الدین راجڑ اور وریام فقیر خاصخیلی کو شکست ہوئی۔ جے ڈی اے میں فنکشنل مسلم لیگ کے صرف دو ارکان سید راشد شاہ جو ضلع خیرپور کے گاؤں پیرجوگوٹھ سے تعلق رکھنے والے موجودہ پیر پگارو سید صبغت اللہ شاہ کے صاحبزادے ہیں اور سانگھڑ سے پیر پگارو کے خلیفہ غلام دستگیر راجڑ کامیاب ہو سکے۔
اس الیکشن میں فنکشنل مسلم لیگ اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کو بڑی شکست ہوئی ۔ سندھ میں جے ڈی اے کی دوسری اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمان) نے انتخابی نشان کتاب پر قومی اور صوبائی اسمبلی کی کئی نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے، جن میں پارٹی کے دوبھائی، مولانا راشد محمود سومرو کوقومی اسمبلی کی دو نشستوںاین اے-193شکارپور سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار شہر یارمہر سے 74 ہزار ووٹوں سے اور دوسری نشست NA-294 لاڑکانہ سٹی سے پاکستان پیپلز پارٹی کے قائد بلاول بھٹو زرداری سے ایک لاکھ ووٹوں سےشکست ہوئی۔ A-296مبر شہداد کوٹ سے ان کے بڑے بھائی مولانا ناصر محمود سومرو کو بلاول بھٹو زرداری نے 51 ہزار ووٹوں سے شکست دی۔
اسی طرح 2018 کے الیکشن میں بدین کی قومی اسمبلی کی نشست سے صرف 997ووٹوں سے کامیاب ہونے والے فہمیدہ مرزا کے صاحبزادے محمد حسام مرزا پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار رسول بخش چانڈیو سے 36 ہزار ووٹوں سے ہار گئے۔ اسی طرح قومی اسمبلی میں جے ڈی اے کے دیگر اہم رہنمائوں، جن میں لاڑکانہ سے ڈاکٹر صفدر عباسی 65 ہزار ووٹوں سے ، خیرپور سے سید صدر الدین شاہ 30 ہزار ووٹوں سے ، غلام مرتضیٰ جتوئی 58ہزار ووٹ سے،تھرپارکر سے ڈاکٹر ارباب رحیم19ہزار ووٹوں سے اور قوم پرست رہنما سید زین شاہ نواب شاہ سے 67ہزار ووٹوں کے بھاری مارجن سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواروں سے ہار گئے۔سندھ میں جے ڈی اے اور اس کی اتحادی جماعتوں کو 2024کی بدترین شکست کی توقع نہیں تھی۔دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کی منظم انتخابی مہم اور پیپلز پارٹی کے روایتی حامی ووٹرز نے اپنے مخالف امیدواروں کو شکست دی۔ شکست کے بعد جے ڈی اے اور بالخصوص فنکشنل مسلم لیگ نے سندھ کے شہروں جامشورواور مورو میں زبردست ریلیاں نکالیں۔جن میں ہزاروں کی تعداد میں پیر پگارا کے عقیدت مندوں نے سر ڈھانپ کر شرکت کی۔اسی طرح جمعہ کو کراچی میں ارکان سندھ اسمبلی کی حلف برادری کے موقع پر جے ڈی اے کی جانب سے سندھ اسمبلی کے گھیراؤ کی کال بھی ناکام ہوگئی۔