• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں تمام قومی اخبارات میں صفحہ اوّل پر ایک خاتون پولیس افسر کی تصویر شائع ہوئی جسے سپہ سالار ِ پاکستان اس کے اچھے کام پر شاباش دے رہے ہیں ۔ یہ تصویر دیکھ کر اچھا لگا مگر یہ بھی خیال آیا کہ کیا ہی اچھا ہوتااگر صوبہ پنجاب کی خاتون وزیر اعلیٰ یہ شاباش دیتیں۔ جنہوں نے صرف چند روز قبل اپنے عہدے کا حلف اٹھا کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔

اہل پاکستان کے دل میں9مئی کے افسوس ناک واقعہ کی یاداور اس کا زخم ابھی تازہ ہے لیکن گزشتہ اتوار کو لاہور کے علاقہ اچھرہ میں پیش آنے والا واقعہ بھی ہمارے معاشرے کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔اس واقعے کی تمام تفصیلات زبان زدِ عام ہیں۔اخباری اطلاعات کے مطابق ایک خاتون نے ایک ایسا لباس زیب تن کیا ہوا تھا جس پر عربی حروف پرنٹ کئے گئے تھے ۔ دقعتااس بازار میں کسی نے نعرہ لگایا کہ خاتون کے لباس پر قرآنی آیات اور نقوش بنے ہوئے ہیں۔ یہ بات سنتے ہی عینی شاہدوں کے مطابق ایک ہجوم اکٹھا ہوگیاجس کے دینی جذبے نے جوش مارا اور وہ اندھا دھند اس خاتون کی جان کے درپے ہو گئے۔ اللّٰہ بھلا کرے ان دکانداروں کاجنہوں نے خاتون کو اپنی دکان میں پناہ دی اور بپھرے ہوئے ہجوم کو بتایا کہ لباس پر عربی رسم الخط کے حروف تو پرنٹ ہوئے ہوئے ہیں لیکن ان کا قرآنی آیات سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس خاتون کی ویڈیو بھی منظر عام پر آچکی ہے جس میں وہ دکان میں پناہ لیے ہوئے ہے اور بپھرے ہوئے ہجوم کے خوف سے تھر تھر کانپ رہی ہے۔ اسے شاید علم تھا کہ اس سے ملتے جلتے حالات میں جس کسی پر بھی دین کی توہین کا الزام لگا، وہ اذیت ناک طریقے سے اپنی جان گنوا بیٹھا۔ جن دکانداروں نے اس لباس کو دیکھا انہوں نے تائید کی کہ ان لفظوں میں کوئی گستاخانہ یا غیر اسلامی بات نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہجوم کا دینی جوش وجذبہ ٹھنڈا نہ ہوسکا اور وہ خودہی مدعی اور خود ہی منصف بن کرخاتون کاسرقلم کرنے پر مصر رہے۔اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے کسی دکاندار نے پولیس کو فون کیا تاکہ وہ آکر اس بے گناہ خاتون کی جان بچاسکے۔جب پولیس موقع پر پہنچی تو ہجوم کے رویہ سے ان کو احساس ہوا کہ معاملہ بہت نازک ہوچکا ہے۔ انہوں نے اپنے افسران بالا کو اس کی اطلاع دی جس کے نتیجے میں اے ایس پی گلبرگ سرکل شہربانو نقوی فوری طور پر موقع پر پہنچیں اور انہوں نے بپھرے ہوئے ہجوم کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ۔ ہجوم کو بتایا گیاکہ خاتون کے لباس سے کوئی توہین ہوئی ہے اور نہ ہی دینی شعائر کی خلاف ورزی ۔

اے ایس پی گلبرگ نے اپنی گفتگو میں ہجوم سے کہا کہ ملازمت کے دوران انہیں تین ایسے واقعات سے واسطہ پڑا ہے ،لہٰذالوگوں کو اپنی پولیس پر اعتماد کرنا چاہیے ۔ویڈیو میں نظر آتا ہے کہ محترمہ شہربانو نقوی خاتون کو ایک چادر میں چھپاکر اپنی حفاظت میں بچاکرنکل رہی ہیں۔ بعد میں پولیس اسٹیشن میں میڈیا کو بتایا گیا کہ خاتون کے لباس پر جو الفاظ لکھے ہوئے تھے ان کا قرآنی آیات سے کوئی تعلق نہیں۔ خوف زدہ خاتون نے خود دوٹوک الفاظ میں توہین مذہب کے الزام کی تردید کی اوربرملا کہا کہ اس کا تعلق ایک دینی سوچ والے خاندان سے ہے اور وہ کسی طرح بھی توہین اسلام کا سوچ بھی نہیں سکتی۔میڈیا کی رپورٹوں سے معلوم ہوتاہے کہ محترمہ شہربانو نقوی اے ایس پی گلبرگ کے علاوہ ایس پی ماڈل ٹائون جناب ارتضی کمیل بھی وہاں پہنچ چکے تھے اور بلال عربی ایس ایچ او اچھرہ کی مدد سے مشتعل ہجوم کو قابو میں رکھ رہے تھے۔ خاتون کو باحفاظت نکلوانے کے بعد یہ افسر کافی دیر مظاہرین میں موجود رہے اور ان کے جذبات کو ٹھنڈا کرتے رہے۔

اس تمام واقعہ کی تفصیلات جاننے کے بعد کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں جو جواب طلب ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ کون سا قانون ہے جو ایک بے لگام ہجوم کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ خود ہی فیصلہ کرلیں کہ دین کی توہین ہوئی ہے اور پھر اس کے بعد اس جرم میں کسی کی جان کے در پے ہوجائیں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ دینی شعور سے عاری ایک ایسا ہجوم جو قرآن سے واقف تھا نہ ہی اس کی آیات سے ،کیا حق رکھتا تھا کہ دین کے نام پر وہ کسی کی جان لے۔ تیسری بات یہ کہ اس تمام شورش کی بنیاد جہالت کے سوا کچھ نہیں تھی۔ تو کیا ریاست پرلازم نہیں ہے کہ وہ جہالت یا بدنیتی کی بنا پرفساد برپاکرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے اور سخت ترین اقدام اٹھائے۔ چوتھی بات یہ کہ اس خاتون کا کوئی گناہ نہیں تھا تو اس سے کس بات کی معافی منگوائی جارہی تھی اور ذلیل کیا جارہاتھا۔ آخری بات صوبہ پنجاب کی سیاسی قیادت کے لیے غور طلب ہے کیونکہ اس قیادت نے منتخب ہوتے ہی یہ نعرہ لگایا تھا کہ وہ کسی خاتون کی بے عزتی برداشت نہیں کرے گی۔ یہاں تو صورتحال یہ تھی کہ نوجوان خاتون کو نہ صرف ہراساں اور خوفزدہ کیا گیا بلکہ اگر پولیس صورتحال کو نہ سنبھالتی تو وہ بے گناہ خاتون اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ۔ اگر نومنتخب خاتون وزیر اعلیٰ کا اعلان صرف سیاسی یا نمائشی نہیں تو ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ تمام شرپسندوں کی تفصیلات حاصل کریں اوران کے خلاف سخت ترین کارروائی کا حکم دیں ۔ ورنہ وہ اپنا یہ اعلان واپس لے لیں کہ وہ کسی عورت کی توہین برداشت نہیں کریں گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اورواٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین