• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین میری نظر سے ایک خبر گزری کہ ٹاٹا گروپ کا مارکیٹ حجم پاکستان کی معیشت سے زیادہ ہے، ٹاٹا گروپ کا کاروباری تخمینہ (کیپٹلائزیشن) 1010کھرب 33ارب 39کروڑ روپے (365ارب ڈالر) رہا جبکہ آئی ایم ایف نے پاکستان کی جی ڈی پی تقریباً 943کھرب 90ارب 9کروڑ روپے (341ارب ڈالر) ہونے کا تخمینہ لگایا، بھارت کی جی ڈی پی، جس کی مالیت10241کھرب74ارب روپے (37 کھرب ڈالر یا3 اعشاریہ7 ٹریلین ڈالر) ہے، پاکستان تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ 346کھرب روپے کے بیرونی قرضے اور واجبات ہیں۔ رپورٹ کے مطابق نمک سے سافٹ ویئر تک لسٹڈ کمپنیوں نے ایک سال میں اسٹاک مارکیٹ میں شاندار منافع حاصل کیا ہے اور انکی مجموعی مالیت اب پاکستان کی پوری معیشت سے زیادہ ہے۔ ٹاٹا گروپ کی سب سے بڑی کمپنی آئی ٹی کی ٹی سی ایس اس کے کاروبار کا محور ہے جس کی مارکیٹ ویلیو تقریباً 470کھرب 56ارب 65کروڑ روپے (170ارب ڈالر) ہے۔ آئی ایم ایف کے اندازوں کے مطابق، اکیلی ٹی سی ایس پاکستان کی معیشت کا نصف ہے۔ جبکہ ٹاٹا گروپ کی تمام فرموں نے گروپ کی مجموعی مارکیٹ ویلیو میں اضافے میں حصہ ڈالا ہے، ٹاٹا موٹرز اور ٹرینٹ نے سب سے اہم شراکت کی ہے۔ ٹاٹا موٹرز کے حصص میں ایک سال میں 110فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ ٹرینٹ نے 200فیصد کا زبردست اضافہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ، ٹاٹا ٹیکنالوجیز، ٹی آر ایف، بنارس ہوٹل، ٹاٹا انویسٹمنٹ کارپوریشن، ٹاٹا موٹرز، آٹوموبائل کارپوریشن آف گوا، اور آرٹسن انجینئرنگ جیسے اسٹاک نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ٹاٹا گروپ کے پاس اسٹاک ایکسچینج میں درج کم از کم 25کمپنیاں ہیں، ٹاٹا گروپ میں مختلف غیر فہرست شدہ کمپنیاں شامل ہیں، جیسے ٹاٹا سنز، ٹاٹا کیپٹل، ٹاٹا پلے، ٹاٹا ایڈوانسڈ سسٹم، اور ایئر انڈیا۔ اگر ان کاروباروں پر غور کیا جائے، تو ٹاٹا گروپ کی کل مارکیٹ کیپٹلائزیشن میں کافی اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق پاکستان کو تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے اس کے پاس 346کھرب روپے (125ارب ڈالر) کے بیرونی قرضے اور واجبات ہیں۔ پاکستان کا 3 ارب ڈالر کا آئی ایم ایف پروگرام اگلے ماہ ختم ہو جائے گا۔

دوسری جانب آج میں آپ کے سامنے اپنے ملک کی ایک رپورٹ پیش کر رہا ہوں، ہمارے 24کروڑسے زائد آبادی والے ملک میں 3کروڑ 80لاکھ بھکاری ہیں جس میں 12فیصد مرد، 55فیصد خواتین ،27فیصد بچے اور بقایا 6فیصد سفید پوش مجبور افراد شامل ہیں۔ ان بھکاریوں کا 50فیصد کراچی، 16فیصد لاہور، 7فیصد اسلام آباد اور بقایا دیگر شہروں میں پھیلا ہوا ہے۔ کراچی میں روزانہ اوسطاً فی بھکاری 2ہزار روپے، لاہور میں 1400اور اسلام آباد میں 950روپے ہے۔پورے ملک میں فی بھکاری اوسط 850روپے ہے۔ روزانہ بھیک کی مد میں یہ بھکاری 32ارب روپے لوگوں کی جیبوں سے نکال لیتے ہیں۔ سالانہ یہ رقم 117کھرب روپے بنتی ہے۔ ڈالر کی اوسط میں یہ رقم 42ارب ڈالر بنتی ہے۔ اب دوسری طرف آئیے۔ 3کروڑ 80لاکھ افراد اگر کام کریں تو فی کس اوسط 2ہزار روپے کی پروڈکٹ بنا سکتے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ روزانہ 76ارب روپے یعنی 27کروڑ ڈالر کی گھریلو صنعت کی پروڈکٹس بنا سکتے ہیں اور سالانہ کام کے دنوں کے اعتبار سے 78ارب ڈالر کی پروڈکٹس تیار کر سکتے ہیں۔ اگر ہم 50فیصد ہی ایفیشنسی ریٹ لے لیں تب بھی سالانہ 39ارب ڈالر کی ایکسپورٹ متوقع ہے۔ بغیر کسی منافع بخش کام کے بھکاریوں پر ترس کھا کر ان کی مدد کرنے سے ہماری جیب سے سالانہ 42ارب ڈالر نکل جاتے ہیں۔ اس خیرات کا نتیجہ ہمیں سالانہ 21فیصد مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے اور ملکی ترقی کیلئے 3کروڑ 80لاکھ افراد کی عظیم الشان افرادی قوت کسی کام نہیں آتی۔ جبکہ ان سے کام لینے اور معمولی کام ہی لینے کی صورت میں آمدنی 38ارب ڈالر متوقع ہے جو چند برسوں میں ہی ہمارے ملک کو اپنے پائوں پر نہ صرف کھڑا کر سکتی ہے بلکہ موجودہ بھکاریوں کیلئے باعزت روزگار بھی مہیا کر سکتی ہے۔ گلی گلی موجود مختلف تنظیموں کے لنگر خانوں کی طرف سے مفت کھانے کی فراہمی صرف ہڈحرام پیدا کر رہی ہے۔ یہ ادارے ریڈی میڈ گارمنٹس، ویلڈنگ ڈیزائن، کاشتکاری اور بے شمار ذرائع میں اس مین پاور کو استعمال کریں اور ان ملازمین کو اجرت کے ساتھ کھانا بھی فراہم کر دیں۔ بنگلہ دیش ماڈل اس کیلئے ہماری مدد کر سکتا ہے۔ اب اگر عوام اسی مہنگائی میں جینا چاہتے ہیں اور اپنے بچوں کی روٹی ان بھکاریوں کو دے کر مطمئن ہیں تو بے شک اگلے 100سال اور اس طرح گزارئیے۔ اگر آپ چند سال میں ہی مضبوط معاشی استحکام اور اپنے بچوں کیلئے پرسکون زندگی چاہتے ہیں تو آج ہی تمام بھکاریوں کو خدا حافظ کہہ دیجئے۔ مفت کھلانے کے تمام عوامل کا بائیکاٹ کر دیجئے۔ اولاً تو اس کے خلاف بیشمار فتاوی ملیں گے اور بھی بہت کچھ متوقع ہے لیکن 5سال کے بعد آپ اپنے فیصلے پر ان شااللہ نادم نہیں ہوں گے اور اپنے بچوں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر خوشی محسوس کریں گے۔ بنگلہ دیش نے جس دن بھکاری سسٹم کو خدا حافظ کہا تھا، اس کے صرف 4سا ل بعد اس کے پاس 52ارب ڈالر کے ذخائر تھے۔ کیا ہم اچھی بات اور مستند کام کی تقلید نہیں کر سکتے۔ اب اپنے بچوں کیلئے فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ ان کو بھیک میں چند روپے تھمانے سے بہتر ہے کہ ان کو ہنر سکھائیے جو دائمی طور پر ان کے کام آئے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے مچھلیاں کھلانے سے بہتر ہے کہ آپ مچھلیاں پکڑنا سکھائیں۔ اس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین