• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے ایک بے حد عزیز دوست ہیں جنہیں سفر کرنے کا بہت شوق ہے، اِس شوق کی تکمیل کی خاطر وہ اپنے پاسپورٹ پر مختلف ممالک کے ویزے لگوا کر رکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نےامریکہ کے ویزے کی درخواست دی جو قبول ہو گئی، سفارت خانے نے انہیں نیلے رنگ کاایک پرچہ تھما دیا جس پر ’ویزہ منظور ہے‘ لکھا ہوا تھا اور کہا کہ پاسپورٹ چند روز میں مل جائے گا۔ تاہم کچھ دنوں تک جب پاسپورٹ نہ آیا تو انہیں بے چینی ہوئی، پتا کیا تو معلوم ہوا کہ اُن کے پاسپورٹ کی’انتظامی جانچ‘ کی جا رہی ہے جس میں کچھ وقت لگے گا۔ موصوف نے مجھے فون کرکے یہ بات بتائی اور پھر پریشان ہو کر پوچھا کہ اب کیاہوگا۔میں نے کہا کہ جناب کا ویزہ منظور ہو چکا ہے سو فکر نہ کریں، جلد یابدیر پاسپورٹ آ جائے گا۔ انہوں نے جواب دیا ’وہ تو ٹھیک ہے مگر ٹینشن شروع ہو گئی ہے۔‘ اِس پر میں نے انہیں غالب کا شعر سنایا جو میرے پسندیدہ اشعار میں سے ایک ہے۔ ’نغمہ ہائے غم کوبھی اے دل غنیمت جانیے... بے صدا ہو جائے گا یہ سازِ ہستی ایک دن۔‘ میں نے کہا کہ اِس شعر کو فریم کروا کے اپنے گھر میں لٹکا لیں تاکہ اٹھتے بیٹھتے آپ کی نظر پڑتی رہے، جو موٹیویشن اِس شعر میں ہے وہ کسی کتاب سےنہیں ملے گی۔ زندگی کبھی بھی ایک ڈگر پر روانی سے نہیں چلتی، جب تک آپ زندہ ہیں یہ آپ کو حیران کرتی رہے گی، کبھی یہ حیرانی خوشگوار ہوگی اور کبھی آپ کو جھٹکا لگے گا، یہ ممکن نہیں کہ آپ سکون میں رہیں، سکون صرف قبر میں ہے، لہٰذا زندگی میں ملنے والے غموں کوبھی غنیمت جانیے، اگر آپ غموں سے نجات چاہتے ہیں تو پھر زندگی کو خدا حافظ کہنا پڑے گا۔ میں نے مور اوور کے طور پر یہ بھی کہا کہ زیادہ سے زیادہ آپ کا ویزہ مسترد ہو جائے گا، کیا فرق پڑتا ہے، آپ کو اللہ نے اتنے وسائل دیے ہیں کہ امریکی شہریت قیمتاً خرید سکتے ہیں سو ٹینشن کس بات کی! میری اِس مختصر سی تقریر کا اُن پرخاصا مثبت اثر ہوا، موصوف کی طبیعت ہشاش بشاش ہوگئی اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔

مجھے اِس بات کااحساس ہے کہ یہاں لوگ بد ترین حالات میں رہ رہے ہیں، اُن کے پاس دو وقت کی روٹی کے پیسے نہیں، اُن کے بچے کُوڑے کے ڈھیر سے چیزیں تلاش کر کے کھاتے ہیں، غالب کا شعر یقیناً اِن افتادگان خاک کے غموںکا مداوا نہیں کر سکتا کیونکہ جیسی زندگی یہ لوگ گزار رہے ہیں اُس سے شاید موت ہی بہتر ہے۔ دوسری طرف اِس دنیا میں متمول، خوشحال اور کھاتے پیتے لوگ ہیں، اُن کی بے سکونی کی وجوہات مختلف ہیں، غالب کا شعر اِن لوگوں کے لیے ہے۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی غیر متوقع واقعات کا مجموعہ ہے ،یہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے، بقول چارلی چپلن’ Life is a tragedy when seen in close-up, but a comedy in long-shot‘۔اِن حالات میں اگر آپ کی زندگی میں یہ چندچیزیںہیںتو سمجھ لیں کہ آپ خوش قسمت ہیں اور اُن پانچ فیصد لوگوں میں شامل ہیں جو اِن ’عیاشیوں‘ کے متحمل ہوسکتے ہیں۔

پہلی چیز ہے صحت۔یہ بات جتنی پرانی ہے اتنی ہی درست ہے۔ جب آپ کی صحت ٹھیک نہیں ہوتی تو پوری دنیا زہر لگتی ہے۔ خدا نے ہمیں ایک ہی جسم دیا ہے جسے سو سال چلنا چاہیے، اُس کی دیکھ بھال کرنے میں ہم لاپروائی برتتے ہیں حالانکہ ہمیں اسےکم از کم ٹویوٹا کرولا جتنی اہمیت تو دینی چاہیے۔ دوسرے نمبر پر مالی آسودگی ہے۔ کسی زمانے میں کریڈٹ کارڈ کا اشتہار چلا کرتا تھا جس کی ٹیگ لائن تھی کہ دنیا میں چند چیزیں ایسی ہیں جو خریدی نہیں جا سکتیں، باقی سب کے لیے کریڈٹ کارڈ ہے نا۔یہ بات درست ہے کہ اسّی فیصد مسائل پیسے کی مدد سے حل کیے جا سکتے ہیں حتّیٰ کہ بیماری کا علاج بھی اسی صورت میں ممکن ہے اگر آپ کے پاس وسائل ہیں بشرطیکہ بیماری لا علاج نہ ہو۔ دولت کااصل فائدہ یہ نہیں کہ آپ مہنگی اشیا خرید سکتے ہیں بلکہ اِس کااصل فائدہ یہ ہے کہ آپ کو زندگی میں فیصلہ کرنے کی آزادی حاصل ہوجاتی ہے۔ شاہ رُخ خان کا موقف اِس معاملے میں بالکل واضح ہے، وہ کبھی جذباتی انداز میں نہیں کہتا کہ زندگی میں پیسےکی کوئی اہمیت نہیں، کسی نے اُس سے پوچھا کہ کیا آپ کا دل نہیں کرتا کہ عام آدمی کی طرح ساحل پر چہل قدمی کرتے ہوئے آئس کریم کھائیں، کنگ خان نے جواب دیاکہ بالکل نہیں، میں وہی رہنا چاہتا ہوں جو میں ہو، میں نے اگر ساحل پر جانا ہو گا تو پرائیویٹ جیٹ میں جاؤں گا، فائیو سٹار ہوٹل میں ٹھہروں گا اور وہیں آئس کریم منگوا لوں گا۔ ایسی صاف گوئی بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔ تیسری بات، محبت۔ اگر دنیا میں دو چار ایسے لوگ ہیں جو آپ سے بغیر کسی لالچ کےمحبت کرتے ہیں تو آپ خوش قسمت ہیں، یہ لوگ آپ کے بیوی بچے، ماں باپ، بہن بھائی بھی ہو سکتے ہیں اور دوست احباب اور محبوب بھی۔ چوتھی چیز ہے تحفظ۔پاکستان جیسےملک میں یہ بہت اہم ہے، ضروری نہیں کہ یہ تحفظ پیسے سے حاصل ہو، اِس کے لیے طاقت اور اختیار چاہیے، اسی لیے دولت مند لوگ با اثر لوگوں سے تعلقات استوار کرتے ہیں۔ یہ تعلقات زندگی میں بے حد اہم ہوتے ہیں، تنہا انسان وہ سب کچھ نہیں کرسکتا جو تعلقات کو استعمال کر کے کیا جا سکتا ہے۔ اب آخری بات۔ دولت، صحت، آزادی، یہ سب باتیں اپنی جگہ ضروری ہیں لیکن ساتھ ہی پُرسکون نیند بھی لازمی ہے، اگر کسی وجہ سے آپ کا ضمیر سونے نہیں دیتا یا آپ کو بے چینی اور ذہنی تناؤ کی وجہ سے نیند نہیں آتی تو پھر آپ کی خوش قسمتی کے نمبر کٹ جائیں گے مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ سب کچھ ہی صفر ہوجائے گا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ جو لوگ زندگی میں یہ عیاشیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں، انہیں کس حد تک اِن کے حصول کے لیے جدو جہد کرنی چاہیے؟ مجھے یوں لگتا ہے کہ جس لمحے ہم اپنے حال کی خوشیوں کو مستقبل بعید میں ملنے والی کسی بڑی خوشی کی خاطر قربان کر دیتے ہیں تو پھر ہم ایسے گھن چکر میں پھنس جاتے ہیں جس سے نکلنا ممکن نہیں رہتا۔ اِن آسائشوں کے حصول کے لیے تگ و دو ضرور کرنی چاہیے مگر لمحہ موجود کو عذاب میں ڈال کر نہیں کیونکہ وقت ایک ایسی عیاشی ہے جو نہ دولت سے خریدی جا سکتی ہے اور نہ کوئی شخص اسے واپس لانے کا اختیار رکھتا ہے۔ بقول اشفاق احمد’موت ہم سے وقت ہی تو چھینتی ہے۔‘

تازہ ترین