• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بالآخر عام انتخابات کے انعقاد کے 21ویں روز 16ویں قومی اسمبلی وجود میں آ گئی، صدر مملکت عارف علوی نے قومی اسمبلی کا ایوان نامکمل ہونے کا بہانے بنا کر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے سے انکار کر دیا تھا لیکن28فروری2024 کو رات پونے بارہ بجے سمری پر دستخط کر کے سرپرائز دیا۔ شنید ہے راولپنڈی سے آنیوالے ’’پیغام رساں‘‘ نے انہیں با وقار طریقے سے ایوان صدر سے روانگی کیلئے سمری پر دستخط کرنے کا آپشن دیا جس کے بعد انہوں نے فوری طور قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی سمری پر دستخط کر دئیے۔ یہ سچ ہے کہ صدر مملکت پی ٹی آئی کی محبت اپنے دل سے نکال نہ سکے وہ قدم قدم پر شہباز شریف اور انوار الحق کاکڑ کی حکومتوں کیلئے مشکلات پیدا کرتے رہے بد قسمتی سے پاکستان میں پارلیمنٹ کے انتخابات کی تاریخ اچھی نہیں رہی اگرچہ 1970ء کے انتخابات کی ’’شفافیت‘‘ کے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن یہ انتخابات بھی شفافیت کے معیار پر پورا نہیں اترے تھے جس پر سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے 7مارچ1977ء کے دھاندلی زدہ انتخابات کے خلاف ملک گیر تحریک چلی جس کے نتیجے میں نہ صرف انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا بلکہ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے، منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تختہ دار پر چڑھ کر امر تو ہو گیا لیکن پاکستان پر 10سال تک فوجی آمر کی حکومت مسلط رہی، ضیا الحق نے اپنی ضرورت کے مطابق غیر جماعتی انتخابات تو کرا دئیے لیکن وہ ایک ’’کمزور اور ناتواں‘‘ وزیر اعظم کو بھی برداشت نہ کر سکے اور اس کی چھٹی کرا دی، ضیا الحق کی شہادت کے بعد پاکستان میں ’’کنٹرولڈ ڈیمو کریسی‘‘ کا ایسا دور شروع ہو ا کہ کسی منتخب وزیر اعظم کو اس کی آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی 18،18ماہ کی حکومتوں کو آئین کے آرٹیکل 58(2) بی کے بے رحمانہ استعمال سے ذبح کیا جاتا رہا جمہوری حکومتوں کو کنٹرول کرنے اور راہ راست پر لانے کے لئے صدر مملکت کے منصب کو اتنا طاقت ور بنا دیا گیا کہ منتخب وزیر اعظم کوکوئی بڑا فیصلہ کرنے سے قبل ایوان صدر کے مکین کی اشیر باد حاصل کرنا پڑتی جب کہ صدر مملکت کا منصب کہیں اور سے کنٹرول کیا جاتا رہا، اس دور میں ہونے والے انتخابات بھی شفاف نہیں رہے کبھی پیپلز پارٹی کو کامیاب بنا دیا جاتا اور کبھی مسلم لیگ (ن) کو ۔ دونوں جماعتوں کو آپس میں لڑانے کی پالیسی جاری رکھی گئی اسے حسن اتفاق کہیں یا کچھ اور 1997ء میں مسلم لیگ (ن) نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت حاصل کر لی جس کے زور پر نواز شریف نے آئین میں 14ویں ترمیم کر کے ضیاالحق کی متعارف کردہ 8ویں ترمیم کو اڑا کر رکھ دیا۔ پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت ختم کر کے ایک بار پھر نیم مارشلائی اور نیم جمہوری نظام متعارف کرا دیا اور انکے دور میں ہونے والے دونوں انتخابات کسی طور بھی شفاف نہیں تھے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا حجم سکڑ کر چند نشستوں تک محدود ہو گیا پھر جب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک صفحہ پر آئیں تو آمر مطلق کو ایوان صدر سے نکلنا پڑا 2002، 2008کے انتخابات بھی شفاف نہیں تھے 2013کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کو آصف علی زرداری نے آر اوز کا الیکشن قرار دیا، عمران خان نے 2013کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کیا اورحلقوں کو کھولنے کی آڑ میں 126دن تک اسلام آباد کا امن تہ و بالا کئے رکھا، عدالتی کمیشن بنایا گیا جس میں عمران خان دھاندلی ثابت کر سکے، نواز شریف کی حکومت ختم کرنا ممکن نہ ہوا تو ان کو عدالتی فیصلے کے ذریعے حکومت سے نکلوا دیا گیا پھر 2018میں ’’باجوہ ڈاکٹرائن‘‘ کے تحت انجینئرڈ انتخابات ہوئے آر ٹی ایس بند کر کے انتخابی نتائج تبدیل کئے گئے، جمعیت علما اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمنٰ انتخابی نتائج تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے نواز شریف بھی تحریک چلانے کے حق میں تھے لیکن آصف علی زرداری نے دونوں جماعتوں کو پارلیمنٹ کا راستہ دکھایا انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کیلئے 30رکنی پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی جس کے ٹی او آر ز بن پائے اور نہ ہی تین سے زائد اجلاس ہوئے جس کے بعد پارلیمانی کمیٹی کی فائل سپیکر چیمبر میں سر بمہر کر دی گئی 2024کے انتخابات بارے میں اسی طرح کی شکایات منظر عام پر آئی ہیں، پی ٹی آئی نے 50سے 80نشستوں کے نتائج تبدیل کرنے کا الزام عائد کیا ہے معلوم نہیں کتنی نشستوں پر مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو نوازا گیا لیکن جہاں پی ٹی آئی انتخابی میلہ لٹ جانے پر مصر ہے وہاں مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بھی نوازے جانے کے باوجود منقسم مینڈیٹ پر ناخوش دکھائی دیتی ہیں، البتہ جہاں مسلم لیگ (ن) پنجاب، پیپلز پارٹی سندھ اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) بلوچستان مل جانے پر مطمئن دکھائی دیتی ہیں، وہاں مولانا فضل الرحمان جمعیت علما اسلام کا حجم کم ہونے پر سڑکوں پر آنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں معلق پارلیمنٹ نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو Marriage of convenienceکرنے پر مجبو رکر دیا ہے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے اپنے 90سے زائد آزاد پرندوں کو مسلم لیگ (ن) کے آشیانے میں پناہ لینے سے بچانے کے لئے سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے پر مجبور کر دیا ہے ، عارف علوی کی روانگی کے بعد ایک بار پھر ایوان صدر میں آصف علی زرداری کا دربار لگنے والا ہے شہباز شریف کی حکومت کا قیام پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے رحم و کرم پر ہو گا منقسم مینڈیٹ نے جہاں نواز شریف کا چوتھی بار وزیر اعظم بننے کا راستہ روکا ہے وہاں شہباز شریف کی حکومت کے لئے بے پناہ مشکلات ہوں گی، سوال یہ ہے کہ کیا یہ پارلیمنٹ چلے گی تو میرا جواب اثبات میں ہے راولپنڈی اور اسلام آباد ایک صفحہ پر رہے تو یہ پارلیمنٹ بھی چلے گی اور اس کے خلاف کوئی تحریک کامیاب بھی نہیں ہو گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین