گوادر کو حالیہ طوفانی بارشوں کے بعد تشویشناک صورتحال کے باعث حکومت نے آفت زدہ قرار دیا ہے ۔ گوادر اور گردو نواح میں بارش اورژالہ باری جاری ہے، نگور میں بارشوں سے کھیتوں کے حفاظتی بند ٹوٹ گئے ،جس کی وجہ سے پانی گوادر شہر کی طرف بڑھنے کا خدشہ ہے۔ گوادر میں بارشوں کے بعد کئی علاقے اب بھی زیرآب ہیں ،مسلسل بارشوں سے گھروں میں پانی جمع ہوگیا اورمتاثرین ' بچے، خواتین اور بزرگ بھوکے، پیاسے ہیں،متاثرہ علاقوں میں پاک فوج کی امدادی کارروائیاں اور راشن کی تقسیم جاری ہے۔متاثرین میں خوراک،پانی اور کمبل تقسیم کیے گئے ہیں ۔کوئٹہ میں بھی بارش سے سڑکیں زیر آب آگئیں،مستونگ، قلات، چاغی،چمن،قلعہ عبداللہ او رپشین سمیت بلوچستان کے دیگر اضلاع میں بھِی بارش سے ندی نالوں میں طغیانی آگئی ۔گوادر میں گزشتہ دو روز کے دوران 183 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی اورمزید بارش کی پیشگوئی بھی کی گئی ہے۔ہلال ِاحمر پاکستان نے گوادر میں بارش سے متاثرہ گھرانوں کےریلیف کیلئے ہدایات جار ی کردی ہیں۔ ایمرجنسی رسپانس میٹنگ میں تمام متعلقہ شعبہ جات کو بھی الرٹ کردیا گیا ہے۔ ہلال ِاحمر جامع حکمت عملی کے تحت متاثرہ گھرانوں کو ضرورت کا سامان مہیا کریگا۔ آپریشن روم تمام صورتحال کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔ ہلالِ احمر پی ڈی ایم اے اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ رابطے میں ہے۔ ہلال احمر پاکستان انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کےساتھ مل کر فوری طور پر متاثرین کی بحالی کے عملی اقدامات شروع کرے تو بہت ممکن ہے کہ متاثرین کی بر وقت اور مناسب مدد ہو سکے ۔ماہی گیروں کوسمندر میں جانے سے گریز کی ہدایت کر دی گئی ہے ۔ 15سال کے بعد گوادر میں اتنی شدید بارشیں ہوئی ہیں پی ڈی ایم کی حکومت میں پلاننگ کمیشن نے بھی اس پر بہت کم توجہ دی جس کے سبب نکاسی آب کا مناسب بندوبست نہیں تھا ۔ اگرچہ افواج پاکستان نے امداد کا کام شروع کر دیا ہے لیکن متاثرین کھلے آسمان تلے سونے پر مجبور ہیں ۔ نئی بلوچستان حکومت کیلئے ضروری ہے کہ سیلاب متاثرین کی فوری بحالی پر بھر پور توجہ دے،اگرچہ قدرتی آفت سے بچنا مشکل ہوتا ہے لیکن اس کے نقصانات کو کم کرنے کیلئے پیشگی اقدامات ضروری ہیں ۔ گوادر دنیا کے سب سے بڑے بحری تجارتی راستے پر واقع اور دنیا کی جدید ترین بندرگاہ کے باعث عالمی سطح پر جانا جاتا ہے۔ 60 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی والا شہرِ گوادر اکیسویں صدی کی ضرورتوں سے آراستہ جدید بندر گاہ ہے اور اس کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ آنیوالے وقت میں گوادر نہ صرف پاکستان بلکہ چین، افغانستان اور وسطی ایشیا کے ممالک کی بحری تجارت کا زیادہ دارومدار اسی بندر گاہ پر ہو گا۔ حکومت پاکستان نے اس بندرگاہ کو چلانے کا ٹھیکہ سنگاپور کی کمپنی سے لے کر ایک چینی کمپنی کے حوالے کر دیا تھا جس کے بعداس منصوبے کو چین پاکستان اقتصادی راہداری کا نام دیا گیا جو بنیادی طور پر خنجراب کے
راستے چین کو گوادر کی بندرگاہ سے ملانے کا منصوبہ ہے۔اس معاہدے پر 2015 میں دستخط ہوئے اور اس وقت معلوم ہوا کہ اس منصوبے میں سڑکیں، ریلوے لائن، بجلی کے منصوبوں کے علاوہ متعدد ترقیاتی منصوبے شامل ہیں۔چونکہ یہ راہداری گوادر سے شروع ہوتی ہےیا ختم ہوتی ہے، اس لیے گوادر اور اس کی بندرگاہ کو اس سارے منصوبے میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ گوادر کی سیلابی صورت حال کے پیش نظر فلاحی اداروں کو بھی سامنے آنا چاہیے تاکہ جلد از جلد گوادر میں سیلاب کے نقصانات کا ازالہ ہو سکے اور متاثرین دوبارہ سے نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں،گوادر میں اس سال شدید بارشوں کی وجوہات بھی سامنے آئی ہیں،گوادر میں گزشتہ دوتین روز سے جاری رہنے والی بارش کا سسٹم مغرب میں پیدا ہوا اور خلیجی ممالک سے ہوتا ہوا پاکستان کے جنوب مغربی علاقوں پر برسا ہے۔ اس مرتبہ گوادر میں یہ بارش غیر معمولی تھی اور اس کی وجہ موسمیاتی تبدیلی کے بعد بننے والا رحجان ہے۔اگر آپ دیکھیں تو گزشتہ چند ہفتوں کے دوران خلیجی ممالک مثلاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بھی کافی بارشیں ہوئی ہیں۔ اس کی وجہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث وہاں سمندر سے اٹھنے والا بارش کا سسٹم ہے۔‘گوادر اور پاکستان کے مغربی علاقوں میں اتنی بارش متوقع تھی اور اس کی پیش گوئی بھی کی گئی تھی،کیونکہ یہ سسٹم بنا ہی مغرب میں تھا، پیش گوئی کی گئی تھی کہ بلوچستان کے بالائی علاقوں میں برف باری جبکہ نچلے علاقوں میں طوفانی بارش ہو سکتی ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے سمیت متعلقہ اداروں کو ہدایات بھی جاری کی گئی تھیں،متعلقہ اداروں کے حکام کا کہنا ہےکہ تمام متعلقہ اداراوں کو ممکنہ طوفانی بارشوں کے لیے تیار رہنے اور انتظامات کرنے سے متعلق نہ صرف ایڈوائزی جاری کی گئی تھی بلکہ محکمہ موسمیات کی جانب سے رواں ماہ میں مختلف قومی و مقامی اخبارات میں بھی سنگین صورتحال سے متعلق تنبیہی پیغامات جاری کیے گئے تھے۔ ایک اسپیل گزرا ہے جبکہ دوسراا سپیل 29 فروری سے دو سے تین مارچ تک متوقع ہے۔ اس بارے میں بھی متعلقہ اداروں کو آگاہ کیا گیا ہے۔ لیکن حکومت بلوچستان نے توجہ نہیں دی جس سے گوادر میں سیلابی تباہی کا منہ دیکھنا پڑا۔