• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا خیبر پختونخوا میں الیکٹبلز اپنی مرضی سے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے اور باقی ملک میں انہیں جبراً شامل کر دیا گیا تھا جو دیگر صوبوں کے برعکس پی ٹی آئی پختونخوا میں مختلف طریقوں سے اپنے وجود کا احساس دلا رہی ہے؟۔ نہیں ہر گز نہیں۔ پختونخوا میں بھی الیکٹبلز کو اسی طرح بلیک میل کر کے اور لالچ دے کر پی ٹی آئی میں شمولیت بالجبر پر آمادہ کیا گیا تھا جس طرح باقی ملک میں کیا گیا تھا۔ تو کیا خیبر پختونخوا کے لوگ عمران خان کو پختون سمجھتے ہیں اور اسی لئے ان سےجڑے رہنا ضروری سمجھتے ہیں۔ نہیں ہر گز نہیں۔ یہ فیکٹر ہوتا تو 1997، 2002یا 2008کے انتخابات میں بھی وہاں کے لوگ عمران خان کا ساتھ دیتے۔ تب عمران خان زیادہ پاپولر اور غیرمتنازع تھے۔ ان کے بڑے بڑے سکینڈلز آئے تھے اور نہ لوگوں کو یہ علم ہوا تھا کہ اقتدار ملنے کے بعد عثمان بزدار اور زلفی بخاری ان کی سلیکشن ہوں گے۔ یہ فیکٹر ہوتا تو لوگ ان انتخابات میں بھی عمران خان کا ساتھ دیتے، حالانکہ ان برسوں میں وہ طالبان اور اینٹی امریکہ کا کارڈ بھرپور طریقے سے استعمال کر رہے تھے اور تب تک یہ حقائق بھی کھل کر سامنے نہیں آئے تھے کہ مغرب مخالف کی بجائے وہ اصلاً مغربی ایجنڈے کو آگے بڑھانے والے ہیں۔ تو کیا پی ٹی آئی نے اپنے دونوں ادوار میں خیبر پختونخوا میں بڑے انقلابی اور غیر معمولی ترقیاتی کام کئے ہیں؟ نہیں ہر گز نہیں۔ پی ٹی آئی کے دونوں ادوار اور بالخصوص دوسرا، مالی اور انتظامی حوالوں سے تاریخ کے بدترین ادوار ثابت ہوئے۔ صرف دو بڑے پروجیکٹ یعنی بی آر ٹی اور بلین ٹری سونامی سامنے آئے جو دراصل کرپشن کے ہمالیہ ثابت ہوئے۔ مالی لحاظ سے صوبہ دیوالیہ ہو گیا۔ جتنا قرضہ قیام پاکستان سے لے کر 2013تک صوبے نے لیا تھا، وہ پی ٹی آئی کے دس سال میں ڈبل ہو گیا لیکن نہ جانے وہ رقم کہاں گئی۔ پھر بھی ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے پیسے نہیں۔ فاٹا کی آبادی شامل ہو جانے کے بعد وفاقی محاصل میں صوبے کا حصہ انیس فی صد تک جانا چاہئے تھا لیکن اسے پی ٹی آئی حکومت میں سابقہ پندرہ فی صد پر منجمد رکھا گیا۔ این ایف سی کا اجلاس نہیں بلایا گیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پانچ سال گزرنے کے باوجود وہاں پولیس کے تھانے تک نہیں۔ کئی قبائلی اضلاع میں تو جج اور ایس پی کے بیٹھنے کیلئے بھی موزوں جگہ نہیں۔ یوں فاٹا مرجر، جسے لوگ غنیمت سمجھ رہے تھے، کو الٹا مصیبت بنا دیا۔ کیا خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی دوسرے اور تیسرے درجے کی لیڈر شپ عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے؟ نہیں ہر گز نہیں۔ پرویز خٹک بغاوت کر کے اپنی پارٹی بنا چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ محمود خان پرویز خٹک کے ساتھ جا چکے۔ سابق گورنر شاہ فرمان پہلے سے عمران خان کے بیانئے کے حامی نہیں تھے۔ عمران خان کے چیف آف اسٹاف شبلی فراز غائب ہیں اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ غائب بھی اسکرپٹ کے مطابق ہیں۔ پختونخوا میں بھی پی ٹی آئی کے جو رہنما غائب یا جیل میں نہیں، وہ کسی نہ کسی چینل سے رابطے میں ہیں اور کچھ وعدوں کے عوض جان کی امان پا رہے ہیں۔ بلکہ جو چند ایک عمران خان کے شیر دِکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ بھی درپردہ طاقتور حلقوں کی مخبری کر رہے ہیں۔

اب جب ان میں سے کوئی بھی وجہ نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ پختونخوا کی صورتحال دوسرے صوبوں سے مختلف ہے؟ میرے نزدیک اس کی وجوہات درج ذیل ہیں۔

پختونخوا ہماری اسٹیبلشمنٹ کیلئے لیبارٹری کی حیثیت رکھتا ہے اور جو بھی نیا تجربہ کرنا ہو اسے پہلے وہاں کیا جاتا ہے۔ عمرانی پروجیکٹ کیلئے باقی ملک کو 2018 میں تجربہ گاہ بنایا گیا لیکن خیبر پختونخوا کو پانچ سال قبل ٹیسٹ کے طور پر 2013میں تجربہ گاہ بنایا گیا، اس لئے وہاں پر نسبتاً لوگوں کے پی ٹی آئی سے مفادات زیادہ وابستہ ہو گئے تھے اور بیوروکریسی میں بھی ان کا اثر اسی طرح گہرا ہو چکا جس طرح کہ پنجاب میں مسلم لیگ (نون) کا ہے یا سندھ میں پیپلز پارٹی کا ہے۔

پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کمیٹڈ، سمجھدار اور محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ بہادر بھی ہیں۔ ان کی پشت پناہی بھی مضبوط ہے جبکہ اس کے برعکس پختونخوا میں پہلے اعظم خان مرحوم کو وزیراعلیٰ بنایا گیا جو ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ حد سے زیادہ شریف تھے جبکہ اب بھی جس ریٹائرڈ جج صاحب کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا وہ حد سے زیادہ شریف ضرور ہیں لیکن سیاست اور انتظامی معاملات میں ان کا کوئی تجربہ نہیں۔ تاہم پی ٹی آئی کو سب سے بڑا فائدہ اعظم خان کی قیادت میں جے یو آئی، پی پی پی، نون لیگ اور اے این پی پر مشتمل مخلوط اور برائے نام نگران حکومت نے پہنچایا۔ جے یو آئی کو اس صوبے میں پی ٹی آئی کا متبادل سمجھا جا رہا تھا لیکن محمود خان کے استعفے کے بعد وہاں پر کابینہ کی تشکیل نو سے قبل ایک سال میں جے یو آئی کی قیادت میں سیاسی جماعتوں نے صوبے میں جو تباہی مچائی اس کی وجہ سے لوگ پی ٹی آئی کو یاد کرنے لگے۔ یہ صوبے کا ہر شخص جانتا ہے کہ پی ٹی آئی کا دور بدتر تو جے یو آئی کی قیادت میں تمام جماعتوں کے اے ٹی ایمز پر مشتمل حکومت کا دور بدترین تھا۔

خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی بقا کی ایک اور وجہ وہاں دیگر سیاسی جماعتوں کی عدم دلچسپی یا ابتر صورت حال ہے۔ یہاں پی ٹی آئی کے سامنے کوئی متبادل قوت تھی اور نہ آج ہے۔ شریف برادران نے ماضی میں پختونخوا پر توجہ دی اور نہ اب دے رہے ہیں۔ ان کی توجہ کا مرکز پنجاب ہے۔ زرداری نے بھی سندھ کی خاطر پختونخوا سے عملاً پارٹی کا جنازہ نکال دیا ہے۔ جے یو آئی کی ایک سال کی مار دھاڑ نےپانچ سال قربان کر دئیے۔ اے این پی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں دیں اور تنظیم بڑی محنت بھی کر رہی ہے لیکن ایمل ولی خان کی پالیسیوں کا کوئی رخ معلوم نہیں۔ پہلے وہ روٹھوں کو منا رہے تھے لیکن اب پارٹی سے اچھے بھلے لوگوں کو نکالنے کا باعث بن رہے ہیں۔ پرویز خٹک جوڑ توڑ کے ماہر ہیں لیکن وہ قومی جماعت کی رہنمائی کا تجربہ نہیں رکھتے۔ رہی جماعت اسلامی تو وہ پہلےسے دیر تک محدود ہو گئی ہے۔ پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ فائدہ اس بات کا پہنچ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی، نون لیگ، پرویز خٹک، اے این پی وزارت اعلیٰ اور لاڈلہ بننے کی خواہش میں آپس میں لڑ پڑے ہیں۔ اب آپ اندازہ لگا لیجئے کہ پی ٹی آئی کو اس سے بہتر سازگار ماحول اور کہاں مل سکتا ہے جو یہاں اسے ملا ہوا ہے۔“

(یہ کالم 29نومبر 2023کو اسی روزنامہ جنگ میں اسی ادارتی صفحے پر ’’پی ٹی آئی اور پختونخوا‘‘ کے زیرعنوان شائع ہوا۔ الیکشن کے بعد ہر زبان پر یہی سوال ہے کہ پی ٹی آئی نے پختونخوا کو کیسے سویپ کیا، تو اس کالم میں کسی حد تک اس کا جواب مل جاتا ہے، اس لئے من و عن دوبارہ نقل کیا)

تازہ ترین