• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، اعلیٰ سرکاری افسران کےاجتما ع میں شرکت کا موقع ملا جہاں ایک جہاندیدہ افسر نے گورننس اور سول سروس کے مسائل پر پریزنٹیشن دی۔ لب لباب اُن کی گفتگو کا یہ تھا کہ قابل اور اہل افسران کی تعیناتی سے ہی ہماری گورننس کے مسائل حل ہونگے۔ اُنکی پریزنٹیشن کے بعد ایک سر پھرے افسر نے بڑا دلچسپ سوال پوچھا کہ اگر ہم اپنے ملک کے کلیدی عہدوں پر نظر دوڑائیں تو پتا چلے گا کہ ہر عہدے پر غیر ملکی جامعات کے فارغ التحصیل افسران تعینات ہیں۔ آئی جی، چیف سیکریٹری، وفاقی و صوبائی سیکریٹری، گورنر سٹیٹ بینک، ایس ای سی پی، اوگرا، نیپرا کے سربراہ، وفاقی و صوبائی محتسب اورسرکاری کارپوریشنز کے چیئرمین سمیت کوئی ایسا ادارہ، محکمہ یا عہدہ نہیں جہاں ہاورڈ، آکسفورڈ، کیمبرج، سٹینفورڈ، ایم آئی ٹی، برکلے، کارنل یا ایمپیرئیل کالج لندن سے پڑھا ہوا افسر تعینات نہ ہو۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے اعلیٰ افسران کئی ممالک میں تربیت کیلئے جاتے ہیں، سیمینارز اور کانفرنسوں میں شرکت کرتے ہیں، وہاں اُن کا ملاپ غیر ملکی مندوبین اور ہم منصب افسران سے ہوتا ہے، اُن ممالک کی سول سروس کے بارے میں جانکاری ملتی ہے جس سے یہ جاننے میں مدد ملتی ہے کہ کیسے اِن ممالک نے اُن مسائل پر قابو پایا جن سے ہم آج کل نبرد آزما ہیں۔ گویا ایک اہم عہدے پر تعینات افسر کو جتنا پڑھا لکھا، تربیت یافتہ اور تجربہ کار ہونا چاہیے، ہمارے افسران اُس پیمانے سے کہیں اوپر ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارا ملک گھن چکر سے نکل ہی نہیں پا رہا، ہماری سروس ڈلیوری بہتر نہیں ہو رہی اور ہماری گورننس کے مسائل دن بدن پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں؟ اُس جہاندیدہ افسر نے تسلیم کیا کہ اِس سوال کاکوئی تسلی بخش جواب اُن کے پاس نہیں۔

سچ پوچھیں تو اِس سوال کا کوئی ایک لگا بندھا جواب نہیں جو میں پیش کروں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اعلیٰ تربیتی ادارے اور غیر ملکی جامعات کسی شخص کو صیقل کر کے نکھار سکتے ہیں، اُس میں جوہر پیدا کر سکتے ہیں، اسے ہنر مند اور قابل بنا سکتے ہیں مگر اُسے راست باز نہیں بنا سکتے، اور اُس میں وہ کیریکٹر پیدا نہیں کر سکتے جو ایک سول سرونٹ میں مطلوب ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیں یہ مغالطہ دور کر لینا چاہیے کہ آئی وی لیگ سے فارغ التحصیل افسر ہی بہترین ہے، اعلیٰ تعلیمی ادارے کی افادیت اپنی جگہ مگر یہ معاملےکا محض ایک پہلو ہے۔ ہم چونکہ سی وی سے متاثر ہونے والے لوگ ہیں اِس لیےڈگریوں کی بھرمار اور تعیناتیوں کی کاک ٹیل دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ افسر ہر فن مولا اور Doerہےجبکہ بد قسمتی سے سی وی یہ نہیں بتاتی کہ افسر دباؤ میں کام کر سکتا ہے یا نہیں اور اُس میں اپنے باس کو انکار کرنے کی کتنی اخلاقی جرات ہے۔ اعلیٰ عہدے چونکہ بے حد پُر کشش ہوتے ہیں، مراعات اور طاقت سے لبریز ہوتے ہیں، اِس لیے زیادہ تر افسران انہیں کھونے کے متحمل نہیں ہو سکتے چاہے انہوں نے پروجیکٹ مینجمنٹ میں پی ایچ ڈی ہی کیوں نہ کی ہو۔

اِس مسئلے کا کوئی آسان اور سادہ حل نہیں ہے، کچھ لوگوں کی رائے میں چونکہ پورا معاشرہ ہی اخلاقی پستی کا شکار ہے اِس لیے سول سروس بھی اِس سے مستثنیٰ نہیں، مگر سوال پھر وہی کہ اِس چکر سے کیسے نکلا جائے؟ اِس کا ایک حل ترقیوں کا نظام درست کرنے میں پوشیدہ ہے۔ سول سروس میں گدھوں اور گھوڑوں کے ساتھ لگ بھگ ایک جیسا برتاؤ ہی کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ گریڈ بائیس میں ایسے ایسے افسر بھی پہنچ جاتے ہیں جنہیں شاید اٹھارہویں گریڈ میں ہی ریٹائر ہو جانا چاہیے۔ اِس مسئلے کا قابل عمل حل یہ ہے کہ ترقیوں کا نظام تبدیل کیا جائے۔ ہماری سول سروس میں ہر گریڈ میں ترقی سے پہلے ایک تربیتی کورس لازمی ہوتا ہے مگر یہ کورس ہر افسر ’کامیابی‘ کے ساتھ مکمل کر لیتا ہے جبکہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ اِس کورس میں ہی افسران کی تطہیر کر لی جائے اور صرف پانچ یا دس فیصد افسران کی ترقی کی سفارش کی جائے۔ لیکن یہ کام تربیتی اداروں کے موجودہ سیٹ اپ میں ممکن نہیں، اِس کیلئے سنگاپور کی طرز کا تربیتی نظام ترتیب دینا پڑے گا اور فیکلٹی ممبران کو غیر ممالک سے بلا کر اِن اداروں میں تعینات کرنا پڑے گا تاکہ سفارش کا ایک فیصد امکان بھی باقی نہ رہے۔یہاں چونکہ تفصیل میں جانا ممکن نہیں، سو صرف ایک خاکہ سا پیش کر دیا ہے۔ یقینا ً یہ ماڈل اخلاقی تطہیر کو یقینی نہیں بنا سکے گا مگر اُن افسران کی چھانٹی ضرور ہو جائیگی جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود گمبھیر مسائل کی درست پڑتال نہیں کر سکتے اور جن میں تنقیدی انداز میں سوچنے کی صلاحیت مفقود ہوتی ہے۔ چونکہ اِس وقت گدھے اور گھوڑے برابر ہیں اِس لیے یہ ماڈل اُس تفریق کو واضح کرنے میں مدد کرے گا تاکہ صرف اہل افسران ہی اگلے گریڈ میں ترقی پا سکیں۔ ہو سکتا ہے آپ سوچ رہے ہوں کہ میں تربیتی اداروں پر کچھ زیادہ تکیہ کر رہا ہوں، شاید ایسا ہی ہو، مگر اِس ضمن میں سول سروس کے اداروں کو فوج سے سبق سیکھنا چاہیے جہاں تربیتی اداروں میں بہترین افسران تعینات کیےجاتے ہیں اسی لیے اُن کا نظام سول سروس سے بہتر ہے۔

اِن تمام باتوں کے علاوہ ایک بات یہ بھی ذہن میں رہے کہ بہت سے سرکاری افسران اپنے اپنے دائرہ کار میں بہترین کام کر رہے ہیں مگر چونکہ ہمارا نظام عمومی طور پر بوسیدہ اور فرسودہ ہو چکا ہے اِس لیے اِن افسران کی ستائش اور پذیرائی نہیں ہو پاتی۔ یعنی اگر کسی محکمے کا افسر حقیقتاً جانفشانی سے کام کرے اور محکمے کی کایا کلپ بھی کرکے رکھ دے تو بھی عوام مشکل سے ہی مطمئن ہوتے ہیں او ر اِسکی وجہ یہ ہے کہ عوام اپنا موازنہ غیر ممالک کے نظام سے کرتے ہیں جہاں سول سروس کی خدمت کا معیار بہت بلند ہے۔ آج کل چونکہ میڈیا پر ہر چیز انگلی کے ایک اشارے سے سامنے کھل جاتی ہے اِس لیے لوگ ترقی یافتہ ممالک کی سروس ڈیلوری دیکھ کر ہمارے جیسے غریب ملک کا تقابل امیر ممالک سے کرتے ہیں اور پھر بیورو کریسی کو مورد ِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ میں نے یہ بات سول سروس کا دفاع کرنے کی غرض سےنہیں کی بلکہ صرف معاملے کا ایک پہلو بیان کیا ہے۔ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ گورننس اور سروس ڈیلوری کو بہتر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ معاشرے اور سماج کی نزاکتوں کو سمجھا جائے، اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے جیسے ممالک میں چونکہ پالیسی بناتے وقت کلچر کی حساسیت کو اہمیت نہیں دی جاتی اِس لیے زیادہ تر پالیسیاں ناکام ہو جاتی ہیں اور یہی بات سول سروس کی بدنامی کا باعث بھی بنتی ہے۔

تازہ ترین