• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے کچھ ماہ قبل دنیا میں تیزی سے فروغ پانے والی گرین اکانومی، گرین انڈسٹریز اور گرین فنانسنگ پر کالم تحریر کیا تھا جس میں گلوبل وارمنگ کے بڑھتے ہوئے مسائل اور ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کیلئے جدید گرین انڈسٹریز کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا جو گرین اکانومی کا ایک اہم جزو ہے۔ آج میں بلیو اکانومی یعنی آبی معیشت کے بارے میں قارئین سے معلومات شیئر کرنا چاہوں گا۔ بلیو اکانومی ایک جدید معاشی ماڈل ہے جس میں معاشی ترقی کیلئے سمندری حدود میں موجود قدرتی آبی وسائل اور اس سے وابستہ معیشت کو بلیو اکانومی کا نام دیا گیا ہے جس میں تیل و گیس کے ذخائر (آف شور ڈرلنگ)، سی فوڈ، فشریز، شپنگ، سیاحت، ساحلی ہوٹلز، ساحلی ہوائوں سے ونڈ اور شمسی توانائی، ایکواکلچر، زیر آب معدنیات اور قیمتی پتھر، سمندری پانی کو میٹھا بنانے کے ڈی سیلی نیشن پلانٹس وغیرہ شامل ہیں۔ کرہ ارض کا تین چوتھائی 75فیصد حصہ سمندر اور ایک چوتھائی یعنی 25 فیصد زمین پر مشتمل ہے جبکہ دنیا کی معیشتوں کا زیادہ تر دارومدار زمینی قدرتی وسائل پر ہے جو کرہ ارض کا صرف 25 فیصد ہے جبکہ سمندر میں موجود 75 فیصد قدرتی وسائل کو بہت کم استعمال میں لایا گیا ہے۔ پاکستان کے جنوب میں بحیرہ عرب ہے جس کا ساحل 1046 کلومیٹر طویل ہے جس میں سندھ سے ملحق انڈس آف شور 270 کلومیٹر اور بلوچستان سے ملحق مکران آف شور 720 کلومیٹر شامل ہیں جس میں مچھلیوں اور جھینگوں کے علاوہ معدنیات اور آئل گیس کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ پاکستانی سمندر کا ساحل 350 ناٹیکل میل تک پھیلا ہوا ہے جس کو 5 زونز گوادر کوسٹ، لسبیلہ کوسٹ، کراچی کوسٹ، ٹھٹھہ کوسٹ اور رن کچھ بدین کوسٹ میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پاکستان کی بلیو اکانومی میں کراچی اور پورٹ قاسم کی بندرگاہیں، فشریز، آئل ٹرمینلز، ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز، اسٹیل ملز، گڈانی شپ بریکنگ انڈسٹریز، گوادر پورٹ اور پاک چائنا ایکسپورٹ پروسیسنگ زون وغیرہ شامل ہیں۔

معیشت دانوں نے دنیا کی سمندری معیشت یعنی بلیو اکانومی کا سائز 24کھرب ڈالر لگایا ہے۔ پاکستان کی 95 فیصد تجارت سمندری راستے سے ہوتی ہے لیکن پاکستان کے میری ٹائم سیکٹر سے حاصل ہونے والی آمدنی صرف 450 ملین ڈالر سالانہ ہے جبکہ بھارت کی 5.6 ارب ڈالر اور بنگلہ دیش کی 6ارب ڈالر سالانہ ہے۔ امید ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل پاکستان کی تیسری بڑی پورٹ گوادر کے مکمل آپریشنل ہونے کے بعد ملک میں میری ٹائم تجارت کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ پاکستان میں اعلیٰ قسم کی مچھلیاں، جھینگے، لوبسٹر اور ٹونا فش پائی جاتی ہیں لیکن فش ہاربر میں حفظان صحت کے اصولوں پر پروسیسنگ نہ کرنے کی وجہ سے یورپی یونین سمیت کئی ممالک نے پاکستان سے سی فوڈ امپورٹ کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔پاکستان فشریز ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے نمائندے مسلم محمدی نے بتایا کہ گزشتہ 10 سال سے یورپی یونین کی انسپکشن ٹیم نے ہماری پروسیسنگ سہولتوں کا معائنہ نہیں کیا لہٰذا پاکستان EU پابندی کی وجہ سے فی الحال چین، جاپان، متحدہ عرب امارات، ملائیشیا کو سی فوڈ ایکسپورٹ کررہا ہے جس کی وجہ سے ہماری سی فوڈ ایکسپورٹ ملکی جی ڈی پی کا بمشکل 500 ملین ڈالر سالانہ ہے۔ حکومت نے سی فوڈ ایکسپورٹ کا ہدف 2 ارب ڈالر رکھا ہے جس کیلئے ہمیں اپنے فشنگ ٹریلرز کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے ساتھ ساتھ فش ہاربر میں یورپی یونین کے معیار کے مطابق حفظان صحت کے اصولوں پر پروسیسنگ یقینی بنانا ہوگی۔ میری وفاقی وزیر میری ٹائم اور بحری امور سے بھی درخواست ہے کہ وہ سفارتی اثر و رسوخ استعمال کرکے پاکستان کی سی فوڈ ایکسپورٹ پر عائد پابندیاں ختم کرائیں۔گوادر پورٹ، پاک چین اقتصادی راہداری کا سب سے اہم منصوبہ ہے جسے گیم چینجر کہا جاتا ہے۔ چین اپنا 80 فیصد تیل مڈل ایسٹ سے آبنائےہرمز کے سمندری راستے حاصل کرتا ہے جہاں امریکی بحری بیڑے کا اثر رسوخ ہے جو چین کی نیشنل سیکورٹی کیلئے باعث تشویش ہے اور کسی سنگین تنازع پر تیل کی سپلائی کو منقطع کیا جاسکتا ہے جبکہ گوادر پورٹ اور سی پیک راہداری کے راستے تیل امپورٹ کرنے میں چین کو اس طرح کا کوئی خطرہ نہیں۔ اس وقت سینٹرل چین سے یورپ کارگو بھیجنے کیلئے 19132 میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے جس میں سینٹرل چین سے شنگھائی پورٹ تک 2625 میل زمینی راستہ اور شنگھائی پورٹ سے یورپ تک 16560میل کا بحری فاصلہ ہے جس میں تقریباً 50 دن لگتے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری مکمل ہونے کے بعد یہ فاصلہ کم ہوکر صرف 2295میل رہ جائے گا اور اسے طے کرنے میں صرف 15 دن لگیں گے۔ اس کے علاوہ شنگھائی سے ہیمبرگ (جرمنی) بھیجنے میں ایک 40 فٹ کنٹینر پر تقریباً 3000 ڈالر فریٹ لگتا ہے جبکہ اس شپمنٹ کو گوادر پورٹ سے بھیجنے میں فریٹ لاگت صرف 1000 ڈالر رہ جائے گی جس سے چین کو اربوں ڈالر کا فائدہ جبکہ پاکستان کو سوئس کینال کی طرح اپنی تجارتی راہداری سے اربوں ڈالر کی ٹرانزٹ فیس حاصل ہوگی جو بلیو اکانومی کی ایک مثال ہے۔ پاکستان کے سمندر میں موجود قدرتی وسائل کے باوجود ملک کی زیادہ تر آبادی زرعی اور صنعتی معیشت سے منسلک ہے جبکہ سمندری وسائل اور اس سے وابستہ معیشت سے فائدہ اٹھانے کی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ پاکستان کی پوری ساحلی پٹی پر آباد ماہی گیر غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جبکہ پاکستان اپنے شاندار سمندری محل وقوع کی بدولت بلیو اکانومی اور سمندر میں موجود وسائل سے بہت اچھی طرح فائدہ اٹھاسکتا ہے جس کیلئے حکومت کو بلیو اکانومی کو فروغ دینے کیلئے ایسی معاشی پالیسیاں مرتب کرنا ہوں گی جو ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اس سیکٹر میں سرمایہ کاری کیلئے راغب کرسکیں۔

تازہ ترین