• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اہم ممالک میں تبدیلی قیادت: پاکستان کی خارجہ پالیسی کیا ہو؟

ہمارے مُلک میں اتحادی حکومت کی صُورت نئی قیادت سامنے آچکی ہے۔اندرونی معاملات پر چھوٹے موٹے اختلافات تو چلتے رہیں گے کہ اتحادی حکومتوں میں یہ معمول کی بات ہے، تاہم، خارجہ پالیسی کے ضمن میں تمام حکومتی جماعتیں تقریباً یک ساں خیالات کی حامل ہیں۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ(نون)، پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور دیگر جماعتوں کو اِس امر کا پورا ادراک ہے کہ مُلک کی سب بڑی ضرورت وہ فوری اقدامات ہیں، جن سے معیشت کی بحالی کا عمل شروع ہوسکے۔اپوزیشن میں پی ٹی آئی، سنی اتحاد کاؤنسل کی شکل میں موجود ہے، جس کے دورِ حکومت میں مُلکی معیشت نیچے آئی اور اس کی اقتدار سے رخصتی پر اوپر گئی۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ معیشت ہی حکومتوں کو کھڑا رکھے گی یا گرائے گی۔ویسے جمہوریت میں حُکم رانی کا تصوّر، حکومتی جماعتوں اور اپوزیشن ہی پر مبنی ہے۔ نہ بے جا رعونت درست ہے اور نہ ہی بے جا ہٹ دھرمی کسی کام کی ۔حکومت کے پاس پانچ سال کا عرصہ ہے، جس میں معاشی سمت کا تعیّن کر کے آگے بڑھنا ہوگا۔’’میثاقِ معیشت‘‘ کی باز گشت ایک بار پھر ایوانوں میں سُنی جا رہی ہے۔ گزشتہ سالوں میں قوم نے جو حالات دیکھے، اُس سے کم ازکم یہ تو واضح ہوتا ہے کہ پارلیمان کی بالادستی بنیادی اہمیت کی حامل ہے، لہٰذا پارلیمان موجود ہے، اسی سے گائیڈ لائنز اور سپورٹ لینی چاہیے۔

باہمی مشاورت اور جماعتوں کی قومی معاملات میں ہم آہنگی کا مطلب فرینڈلی اپوزیشن نہیں، بلکہ یہ قومی ضروریات کی سمجھ بوجھ کا ثبوت ہے۔امریکا میں تو بائی پارٹیزن ووٹ عام سا عمل ہے، جس میں کسی بھی پالیسی یا قرارداد پر رکنِ پارلیمان کوئی بھی رائے دے سکتا ہے اور اسے پارٹی ڈسپلن کے خلاف نہیں سمجھا جاتا۔ یہی روایات برطانیہ، فرانس، جرمنی، جاپان اور بھارت میں بھی عام ہیں۔ بھارت میں مودی حکومت نے کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کی، تو اپوزیشن نے اس کا ساتھ دیا، یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے بھی اسے تسلیم کیا، حالاں کہ اس میں نا انصافی بالکل واضح تھی۔ 

دنیا کے سب سے بڑے اسلامی مُلک، انڈونیشیا میں تو گزشتہ سالوں میں اکثر بلز انتہائی مقبول صدر نے اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر ہی پاس کروائے اور مُلک کے بڑے ترقیاتی منصوبے پورے کیے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسی پارلیمانی روایات نظر انداز کرکے جمہوریت پر کاری ضربیں لگائی گئیں۔ترقّی بیانات سے نہیں، عمل سے ہوتی ہے، مگر ہم بحیثیت قوم بہت سُست ثابت ہوئے ہیں، اِسی لیے دنیا میں کوئی مقام نہ حاصل کر سکے۔اس کا اندازہ گرین پاسپورٹ کے ساتھ کسی مُلک کے ائیر پورٹ پر اُتر کر لگایا جاسکتا ہے۔ہمارا ماضی خاصا تکلیف دہ ہے، سیاست اور حکومت میں دخل اندازیاں ہوتی رہیں، لیکن اب ماضی سے سیکھتے ہوئے سب اداروں اور جماعتوں کو مِل جُل کر مُلکی ترقّی کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا، اگر سب اپنے اپنے دائرے میں رہیں، تو مُلک کو درپیش بہت سے مسائل حل جائیں گے۔

یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ سڑکوں پر انقلاب کی باتیں اب بھولی بسری داستانیں بن چُکی ہیں اور یہ کہ اگر ایوانوں کی بجائے سڑکوں پر فیصلے ہوتے رہے، تو اس کا انجام ہماری سوچوں سے بھی سنگین ہوگا۔ پارلیمان میں جمہوری طریقوں سے فیصلے کروانا صبر آزما اور مشکل ضرور ہے، مگر یہی دیرپا حل ہے۔ اس کے لیے سیاسی سوجھ بوجھ، جمہوری شعور، قومی مسائل اور دنیا کے حالات کا ادراک ضروری ہے۔

رواں برس صرف ہمارے ہی مُلک میں انتخابات نہیں ہوئے،بلکہ دنیا بھر میں قیادتیں تبدیل ہو رہی ہیں یا موجودہ قیادتوں کو ازسرِنو مینڈیٹ مل رہا ہے۔مسلم ممالک میں انڈونیشیا میں تبدیلی آئی، جب کہ بنگلا دیش میں حسینہ واجد تیسری مرتبہ وزیرِ اعظم بنیں۔ مغربی ممالک نے اُن پر بہت تنقید کی، لیکن اس کے باوجود اُن کی اقتدار پر گرفت مضبوط ہے۔برطانیہ میں قیادت کا فیصلہ مئی میں ہوگا، جب کہ بھارت میں اگست تک صُورتِ حال واضح ہوگی اور امریکا میں نئی قیادت نومبر میں آئے گی۔ پاکستان اورامریکا کے درمیان تعلقات بھی ایک اہم معاملہ ہے۔

امریکی خارجہ امور کے ترجمان نے اپنے حالیہ بیان میں ایک مرتبہ پھر بانی پی ٹی آئی کے الزامات کی تردید کی ، جس کا مطلب یہ ہوا کہ اب تک پاک، امریکا تعلقات میں کہیں پھانس چبھی ہوئی ہے اور نئی حکومت کے لیے یہ ایک اہم مسئلہ ہوگا۔ امریکا، پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور اس تجارت کا حجم تقریباً34 فی صد ہے۔ پھر آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے مالیاتی اداروں میں اس کا حصّہ اور اُن پر اس کے اثرات بھی ڈھکے چُھپے نہیں۔امریکا میں صدارتی دوڑ کے فرنٹ رنر، ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دورِ حکومت میں پاکستان نہیں آئے، جب کہ اُس وقت کے پاکستانی وزیرِ اعظم کو صرف چار ماہ میں دو مرتبہ وائٹ ہاؤس جانا پڑا کہ افغان مسئلے کا حل نکالنا امریکا کے لیے ضروری تھا۔ 

ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کی بات کی، جسے بھارت نے نہ صرف مسترد کردیا، بلکہ نریندر مودی نے اپنے دورۂ امریکا کے بعد آرٹیکل370 کا خاتمہ کر کے مقبوضہ کشمیر کی رہی سہی خود مختاری بھی ختم کرکے اسے بھارت کا صوبہ بنا دیا گیا۔یہ اقدام پاک،بھارت تعلقات میں تلخی کا ایک اور باب بن گیا۔ڈونلڈ ٹرمپ اِس دور کے سب سے طاقت وَر قوم پرست امریکی رہنما ہیں، تو کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ امریکی مفادات سے ہٹ کر کوئی پالیسی بنائیں گے۔

درحقیقت، اُن کی یہی ادا امریکا کے عوام کوپسند ہے، اِسی لیے ٹرمپ مسلسل بطور صدارتی امیدوار اپنی پوزیشن مستحکم کر رہے ہیں اور یہ بھی عوامی مقبولیت کی، جسے’’ پاپولزم‘‘ کہا جاتا ہے، ایک بہترین مثال ہے۔ہم غزہ میں امریکی پالیسی پر سخت نالاں ہیں، لیکن ٹرمپ تو اپنے دَور میں مقبوضہ بیت المقدِس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرچُکے تھے۔وہ عرب، اسرائیل تعلقات کے بانی ہیں۔ امریکا میں پاکستانی تارکینِ وطن کی تعداد چھے لاکھ ہے، جب کہ مُلک کی آبادی تیس کروڑ سے زاید ہے۔

نیز، افغانستان سے جانے کے بعد امریکا کو اب پاکستان کی زیادہ ضرورت بھی نہیں رہی، تو سوال یہ ہے کہ ایسے میں اسلام آباد کس طرح واشنگٹن کو اعتماد میں لے سکے گا۔ امریکا میں مقیم پاکستانی تارکینِ وطن کو خاص طور پر ٹرمپ کی سوچ کا بغور جائزہ لینا چاہیے کہ اُن کے جذباتی خیالات اُن کے لیے کس قسم کی مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صُورتِ حال برطانیہ کی ہے کہ اگر وہاں دوبارہ کنزرویٹو حکومت آجاتی ہے، تو پھر وہاں رہنے والے پاکستانی خاصی پریشانی کا سامنا کرسکتے ہیں، کیوں کہ جس طرح کے امیگریشن قوانین بن رہے ہیں، اُن سے تارکینِ وطن کو فیملیز بُلانے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ 

مغربی ممالک، خاص طور پر جنوب مشرقی ایشیا اور یورپ میں یہ سوچ عام ہے کہ امریکا اور برطانیہ زیادہ بہتر طور پر پاکستان کی پالیسیز سمجھ سکتے ہیں، اِس لیے اِن ممالک کی پاکستان سے متعلق پالیسیز امریکا اور برطانیہ سے زیادہ مختلف نہیں ہوں گی۔ ہمیں خارجہ پالیسی بناتے ہوئے یہ منظر نامہ سامنے رکھناہوگا۔ مشکل یہ ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں پر مغربی طاقتوں کی مضبوط گرفت ہے، جب کہ ہمیں مستقبل میں بار بار اُن کی مدد کی ضرورت ہوگی۔ہم نے نعروں اور شخصیت پرستی کو ترجیح دیتے ہوئے جس طرح معیشت کو پسِ پُشت ڈالا، اُس کے نتائج نئی حکومت اور عوام دونوں ہی دیکھیں گے، جب مشکل فیصلوں سے ان کا سابقہ پڑے گا، جو کہ ناگزیر ہیں۔دیکھنا ہوگا کہ نئی حکومت کس طرح مغربی ممالک کو یہ یقین دلاتی ہے کہ اس کے پالیسیز میں کہیں ٹکراؤ نہیں۔

مشرقِ وسطیٰ، غزہ کی جنگ کے باوجود غیر مستحکم نہیں ہوا۔اب بھی وہاں تیل پیدا کرنے والے ممالک کی قوّت زیادہ ہے، کیوں کہ مصر، عراق اور شام وغیرہ نے اپنی معیشتیں انقلابی نعروں اور خانہ جنگیوں سے کم زور کرلیں اور اب وہ تیل پیدا کرنے والے ممالک پر انحصار کر رہے ہیں۔ اِس وقت عرب دنیا ہی نہیں، مشرقِ وسطیٰ میں سعودی عرب قیادت کر رہا ہے، جب کہ اس کے رہنما ولی عہد شہزادہ محمّد بن سلمان ہیں۔ اب جسے بھی خطّے میں معاملات طے کرنے ہوں گے، انہی سے بات کرنی پڑے گی۔ صدر جوبائیڈن اپنی صدارت کے آغاز میں محمّد بن سلمان کے مخالف نظر آئے، انسانی حقوق کی بڑی بڑی باتیں کیں، لیکن چند ہی ماہ بعد اُن سے ملنے کے لیے سعودی عرب کے چکر لگانا شروع کردیئے اور آج تک لگا رہے ہیں۔ 

تیل کے معاملات ہوں یا غزہ کا تنازع، سعودی عرب فوکل ہے۔ ایران خود تو کسی نہ کسی طرح اپنی معیشت چلا رہا ہے، تاہم مشرقِ وسطیٰ کے ممالک جانتے ہیں کہ وہ پابندیوں کی وجہ سے اب کسی دوسرے مُلک کی مدد کرنے کے قابل نہیں رہا۔ بہت ہوا، تو سستا تیل فراہم کر سکتا ہے اور بھی ڈھکے چُھپے انداز میں۔اس کا زیادہ تر مال اسمگلنگ کے ذریعے دیگر ممالک تک جاتا ہے، جو نہ اس کے لیے سُود مند ہے اور نہ ہی باقی ممالک کے لیے۔ بلوچستان میں یہ اسمگل شدہ ایرانی مال ہر طرف بِکتا نظر آتا ہے۔

پاکستان کے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ خاص طور پر شریف فیملی سے متعلق کہا جاتا ہے کہ اُن کے وہاں مضبوط روابط ہیں۔ ماضیٔ قریب میں ہماری معاشی حماقتوں اور سیاسی نادانیوں نے عربوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے، اِسی لیے وہ ہمارے مقابلے میں، سرمایہ کاری کے لیے بھارت، تُرکی اور دیگر ممالک کو ترجیح دینے لگے ہیں۔نئی حکومت اپنے اچھے تعلقات کے پس منظر سے کیسے فائدہ اٹھاتی ہے، یہ اہم ہوگا، لیکن ہمیں قطری خط اور گھڑیوں کی فروخت کے قصّے بھی بند کرنے ہوں گے۔

یہ موضوعات ہمارے ہاں تو دل چسپی کا باعث ہوسکتے ہیں، لیکن عربوں کے لیے انتہائی ناپسندیدہ ہیں اور وہ ایسی باتوں پر نظر بھی رکھتے ہیں۔یاد رہے، 70 فی صد پاکستانی تارکینِ وطن انہی عرب ممالک میں رہتے ہیں۔ وہاں جمہوریتیں ہیں اور نہ ہی وہاں بے پر کی تنقید برداشت کی جاتی ہے، جب کہ وہ مغربی طرز کی آزادیٔ رائے کو بھی اہمیت نہیں دیتے۔

چین سے ہمارے تعلقات بہت اچھے، بلکہ مثالی ہیں۔ چین کی قیادت، پاکستان کی ترقّی اور معیشت کی مضبوطی کو اوّلیت دیتی ہے، اِسی لیے وہ اندرونی سیاست میں الجھنے کی کوشش کرتی ہے اور نہ ایسے مشورے دیتی ہے، جنہیں بیرونی میڈیا تنقید کے لیے استعمال کر سکے۔حالیہ انتخابات میں دھاندلی کے شور کے باوجود چین کا رویّہ اس پالیسی کی عکّاسی کرتا ہے۔چین نے ہر محاذ پر ہماری مدد کی ہے اور ہر مشکل وقت، خاص طور پر معاشی مشکلات میں ہمارا ساتھ دیا ہے۔ 

حال ہی میں اس نے دو ارب ڈالرز کا قرضہ پھر رول اوور کردیا تاکہ نئی حکومت کو کسی پریشانی کا سامنا نہ ہو اور وہ آئی ایم ایف سے بھی معاملات نمٹا سکے۔ لیکن ہم اپنی اندرونی سیاست اور دشمنیوں میں اِس بُری طرح اُلجھے ہوئے ہیں کہ چین جیسی بڑی طاقت اور ہر موسم کے دوست سے فائدہ نہیں اُٹھا سکے۔چین کے پاس شنگھائی فورم، برکس بینکس جیسے سیاسی، فوجی اور مالیاتی عالمی ادارے ہیں، اگر ہماری حکومت مناسب تیاری کے ساتھ انہیں اپروچ کرے، تو یہ ادارے ہماری سیاسی اور معاشی معاملات میں بہت معاونت کرسکتے ہیں۔

نواز شریف حکومت میں چینی صدر کے دورے کی منسوخی کے بعد سے وہ آج تک یہاں نہیں آئے، جب کہ بھارت کے دورے کرچُکے ہیں۔شنگھائی فورم پر بھارت بھی موجود ہے، جو ہمارے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے، لیکن آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ہم سایوں سے کم ازکم ورکنگ ریلیشنز تو رکھیں اور چین کی بھی یہی خواہش ہے، جس کا وہ برملا اظہار بھی کرچکا ہے۔بھارت اور چین کے ہمالائی سرحد پر اختلافات ہیں، جو فوجی تصادم تک کا خطرہ پیدا کر دیتے ہیں، لیکن وہ تدّبر کے ساتھ ان معاملات کا حل تلاش کرلیتے ہیں۔چین اور بھارت کے درمیان تجارتی حجم100 ارب ڈالرز سے زیادہ ہے۔مودی اور صدر شی جن پنگ کے درمیان باہمی روابط، ہوم ڈپلومیسی تک دراز ہیں۔

ہمارے لیے کم زور معیشت اور قرضوں کے بوجھ سے نکلنے کے لیے ہم سایوں، بشمول بھارت سے تعلقات کس قدر اہم ہیں، اس پر معاشی ماہرین، تجارتی اداروں اور مختلف تھنک ٹینکس کی آرا سامنے آتی رہتی ہیں۔اِس وقت جو جماعتیں پارلیمانی سیاست کا حصّہ ہیں، وہ سب تعلقات بہتر بنانے کی بات کرتی ہیں۔ عمران خان نے تو اپنی وکٹری اسپیچ میں بھارت سے کہا تھا کہ’’ تم ایک قدم بڑھائو، ہم دو قدم بڑھائیں گے۔‘‘چین گزشتہ سال سعودی عرب اور ایران میں دوستی کا معاہدہ کروا کے مشرقِ وسطیٰ کو ایک سمت دینے میں کام یاب ہوا، اسی لیے اب ایران اور عرب ممالک کے لیے معاشی فیصلہ سازی آسان ہو گئی ہے۔چین کا یہ پسِ پردہ کردار بہت کم لوگوں کے زیرِ غور آیا۔ اگر ہم چین کے ذریعے بھارت سے معاملات بہتر نہ کرسکے، تو یہ ہماری حکومتوں کی نا اہلی ہی ہوگی۔ واضح رہے، خارجہ امور میں سب سے اہم اصول مفادات کا حصول ہوتا ہے، تو ہمیں بھی بھارت کے معاملے میں یہی اصول اپنانے کی ضرورت ہے۔

یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ معیشت میں خارجہ پالیسی کے نتائج فوری نہیں آتے۔یہ ممکن نہیں کہ اِدھر دورہ ہوا، اُدھر نتائج ملنے لگیں۔اِس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ مُلک و قوم مشکل وقت سے گزر رہے ہیں، لیکن اس سے نکلنا کچھ مشکل نہیں، اگر قوم یک سوئی کے ساتھ اپنے خارجہ امور پر توجّہ دے۔ ہمیں سب سے دوستی رکھنی ہے اور کسی سے بھی دشمنی نہیں کرنی۔ ہاں، اختلافات ہوتے رہتے ہیں، جن کے حل کی قوم میں صلاحیت موجود ہونی چاہیے۔