• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1980ء کی دہائی میں پولینڈ کے معاشی حالات اِس قدر خراب تھے کہ حکومت کو اخراجات قابو میں رکھنےکیلئے شہریوں کی ماہانہ راشن بندی کرنی پڑتی تھی ۔قانون کی رُو سے ہر شخص ایک ماہ میں صرف پانچ سو گرام مکھن،ایک کوکنگ آئل کا پیکٹ،ڈھائی سو گرام مٹھائی، سو اکلو آٹا،ڈھائی کلو گوشت، سوا کلو چاول، دو کلو چینی،تین سو گرام کپڑے دھونے کا پاؤڈر، دوصابن کی ٹکیاں اور آدھا لیٹر ووڈکااستعمال کرسکتا تھا۔پولینڈ یہاں ایک دن میں نہیں پہنچا تھا بلکہ اِس کے پیچھے کمیونسٹ لیڈر ایڈورڈ گیرک کی معاشی پالیسیاں تھیں جنہوں نے پولینڈ کو معاشی تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا۔ایڈورڈ گیرک کاظہور ایک مقبول رہنماکے طور پر ہوا، اُس نے متعدداصلاحات متعارف کروائیں جن کی وجہ سے پولینڈ کے شہریوں کو سفر کی آزادی حاصل ہوئی تاہم اُس کے معاشی اقدامات کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔گیرک حکومت کو مغربی ممالک نے بھاری قرضےفراہم کیے مگر اُس نے یہ قرضے اللے تللوں اور پُرتعیش اشیا کی درآمد میں ضائع کردیے۔بڑھتے بڑھتےاِن قرضوں کا حجم چالیس ارب ڈالر تک پہنچ گیا ، معیشت گرتی چلی گئی اور افراط زر آسمان کو چھونے لگا۔گو کہ1981 میں گیرک کو پارٹی سے نکال دیا گیامگر تب تک معیشت کی تباہی کے اثرات پورے ملک میں پھیل گئے، دکانوں سے اشیائے صرف غائب ہونے لگیں اور ماہانہ راشن بندی شروع ہوگئی ۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، لوگوں نے کمیونسٹ حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کردی، معاشی حالات مزید دگر گوں ہوگئے جنہیں بہتر بنانے کیلئے حکومت کے پاس کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں تھا۔احتجاجی تحریک زور پکڑنے لگی ،اِن پرامن مظاہروں کے نتیجے میںلاغر کمیونسٹ حکومت مزید دباؤ میں آگئی اور یوں اِس تحریک نے پولینڈ کی تاریخ بدل دی۔ ملک میں اہم سیاسی اصلاحات نافذ کی گئیں جن کے نتیجےمیں پولینڈ میں کمیونسٹ حکمرانی کا خاتمہ اور جمہوری دور کا آغازہوا۔لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ یہاں سے شروع ہوتی ہے۔

کمیونزم کے خاتمے کے بعد قائم ہونے والی حکومت کو معاشی استحکام کا چیلنج درپیش تھا ،اِس سے نمٹنےکیلئے حکومت نے ’شاک تھراپی ‘ کی اصطلاح متعارف کروائی جس کا مطلب افراط زر کوقابو میں رکھنا اور پولینڈ میں معاشی اصلاحات نافذ کرکے معیشت کو آزاد کرنا تھا۔ اس منصوبے کے تحت حکومت نے تنخواہیں منجمد کر دیں، اشیائے صرف کی قیمتوں کو سرکاری پابندی سے آزاد کردیا، سرکاری اداروں کو دی جانے والی رعایتیں ختم کر دیںاوربڑے پیمانے پر نجی کاروبار کی اجازت دے دی۔اِن حکومتی اصلاحات کے نتیجے میں پہلے تو عوام کو بڑا دھچکا (شاک)لگا،صنعتی پیداوار اور مجموعی جی ڈی پی میں نمایاں کمی آئی ،زرعی پیداوار کم ہو گئی اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوگیا تاہم ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ افراط زر یعنی مہنگائی، جس کی شرح 1990 میں 250 فیصد تھی ، 2000 میں کم ہو کر 10 فیصد تک آگئی۔صنعتی پیداوار اور جی ڈی پی کی شرح بھی بہتر ہونا شروع ہوگئی اور 1990 سے 2000 تک اوسطاً سالانہ جی ڈی پی میں تقریباً 4 فیصد اضافہ ہوا، اِسکے علاوہ پولینڈ کی ادائیگیوں کا توازن بھی بہتر ہوا۔پولش حکومت نے ایک بڑا کام سرکاری اداروں کی نجکاری کا بھی کیا ، یہ ایک الجھا ہوا اور پُر پیچ عمل تھا، حکومت نے اِس کے حل کیلئے بڑے پیمانے پر نجکاری کا ایک جامع پروگرام متعارف کروایا،اِس پروگرام کے تحت 15 قومی سرمایہ کاری فنڈقائم کیے گئے جنہوں نے اُن500سے زائد سرکاری اداروں کی جوائنٹ سٹاک کمپنیوں کے طور پر کام شروع کیا جن کی نجکاری کرنا مقصود تھا۔اِن کمپنیوں کے حصص معمولی قیمت پر مارکیٹ میں فروخت کے لیے رکھے گئے ، عوام نے بڑی تعداد میں یہ حصص خریدے جس کا فائدہ یہ ہوا کہ حکومت کو نقد رقم مل گئی جبکہ عوام کو اُن کمپنیوں کے شئیرز کے ذریعے پولینڈ کی بڑی صنعتوں میں سرمایہ کاری کا موقع مل گیا ۔1994 سے لے کر 2001 تک، نجکاری پروگرام کے تحت 600 سرکاری اداروں کی نجکاری کا عمل کیا گیا۔ آج پولینڈ یورپ کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک ہے۔

پاکستان کی موجودہ حالت1980کے پولینڈ سے زیادہ خراب نہیں ہے، بے شک ملک میں غربت ہے، مہنگائی ہےمگر افراط زر کی شرح 250فیصد نہیں ہے، کہیں راشن بندی نہیں ہے، ملک میں کسی شے کی قلت نہیں ہے، لوگوں کو روز مرہ کی اشیا کیلئے طویل قطاروں میں نہیں کھڑا ہونا پڑتا۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ ملک پر غیر ملکی قرضوں کا حجم اُس وقت کے پولینڈ سے زیادہ ہے۔ اِن حالات میں ہم پولینڈ سے تین باتیں سیکھ سکتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ کسی بھی قسم کے معاشی اقدامات کرنے سے پہلے حکومت کو ’شاک تھراپی‘ کی طرح کوئی اصطلاح متعارف کرنی پڑےگی جس کے تحت اصلاحات کا جامع پروگرام نافذ کیا جائے۔یہ سلوگن یا نعرہ ملکی معیشت کی تصویر کشی بھی کرے اور حکومت کے پُرعزم ہونے کا تاثر بھی دے، یہ ویسا ہی نعرہ ہوگا جیسا بِل کلنٹن کی انتخابی مہم کا تھا ’It’s the economy stupid۔‘دوسرا کام معاشی اصلاحات نافذ کرنا ہے ۔یہ کام بھی رَوا َروی میں نہیں ہونا چاہیے بلکہ اِس کیلئے معاشی ٹیم کو کم از کم ایک ہفتے تک سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے، یہ ٹیم اُس وقت تک اپنے گھروں کو نہ جائے جب تک اصلاحات کا ایک جامع پروگرام نہ بنا لے۔ اصلاحات کے اِس پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کیلئے SIFC کا فورم پہلے سے موجود ہے جہاں سرعت کے ساتھ کام ہوتا ہے، اِس فورم کی افادیت ثابت کرنے کا اِس سے بہتر طریقہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ تیسرا کام نجکاری اور اِس کے ساتھ برآمدات میں اضافہ ہے۔ اِس وقت پاکستان کی سرکاری کارپوریشنز ایک ہزار ارب سے زائد کے خسارے میں ہیں، اصولاً یہ کماؤ پوت ہونے چاہئیں، ذرا سوچیں کہ اگر یہ ہزار ارب بجٹ سے نکلنے کی بجائے آمدنی میں تبدیل ہوجائیں تو ہمارا سانس بحال ہو جائے گا۔ اسی طرح ہماری برآمدات بھی شرمناک حد تک کم ہیں، یہ تیس ارب ڈالر سے ساٹھ ارب ڈالر ہوں گی تو ہماری معیشت کی کشتی چلے گی، اِس سے کم میں اب گزارا نہیں۔

پولینڈ وہ ملک ہے جو دوسری جنگ عظیم کے عذاب سے گزرا، پھر وہاں کمیونسٹ حکومت رہی اور اُس کے بعد اسے معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اِس لحاظ سے پولینڈ خوش قسمت بھی ہے کہ مغربی ممالک نے اُس کے بیشتر قرضے معاف بھی کردیئے جس کی وجہ سے معاشی اصلاحات کا پروگرام نافذ کرنے میں مدد ملی۔ اِس کے باوجود جن حالات کا ہمیں سامنا ہے وہ اُس سے بد تر نہیں جن سے پولینڈ کو گزرنا پڑا، اگر پولینڈ یہ سب کچھ کرسکتا ہے تو ہم کیوں نہیں؟

تازہ ترین