• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

‎جبر و آمریت کی مخالفت اس درویش کے رگ و ریشے بلکہ ہڈیوں تک میںہے اس اپروچ کے زیر اثر اس کی کتاب’’جمہوریت یا آمریت؟‘‘ تخلیق ہوئی ۔اس پس منظر میں محترم ڈاکٹر جاوید اقبال سے کئی مواقع پر بحث بھی ہو جاتی جن کا فرمانا ہوتا کہ دیکھیں اصولی اور نظریاتی سچائیاں اپنی جگہ مگر کچھ تلخ زمینی حقائق ایسے شدید ہوتےہیں جن سے آنکھیں بند کی جا سکتی ہیں اور نہ ہی ان سے ٹکرا کر ْٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓآگے بڑھا جا سکتا ہے ہم مانیں یا نہ مانیں ،اس ملک کی تخلیق کے ساتھ ہی جس نوع کا ہائبرڈ سسٹم تشکیل پایا اس کی وجوہ پر بحث ہو سکتی ہے لیکن اسکے وجود سے انکار کر کے ہم آگے نہیں بڑھ سکتے، اگر آپ یہ چاہیں کہ اسے بائی پاس کر کے گزر جائیں گے یا اسے پاش پاش کر کے عوامی اقتداراعلیٰ منوا لیں گے تو یہ ممکن نہیں۔جب تک جمہوریت کے حوالے سے عوامی کمٹمنٹ بنیان مرصوص نہیں ہوجاتی آپ کو بیچ کی کوئی راہ نکالنی پڑے گی ۔یہ درویش محترم ڈاکٹر جاوید اقبال سے خوب الجھتا مگرآج وقت نے ان کی فکری پختگی اس ناچیز پر نہ صرف یہ کہ واضح کر دی ہے بلکہ وہ اس اصولی ہدایت پر ایمان لے آیاہے کہ پریکٹس کے بغیر تھیوری محض دماغی خلل ہے، مثال کے طور پر درویش کا موقف ہے کہ پاک ہند تعلقات یا دوستی محض تاریخی تہذیبی یا سفارتی سطح سے کہیں آگے بڑھ کر تجارتی یا موسٹ فیورٹ نیشن جیسی،یک جان دو قالب کی طرح ہو لیکن کیا یہ سب ہمارے طاقتوروں کی رضا یا خوشنودی کے بغیر ممکن ہے؟ہرگز نہیں، اس سلسلے میں چاہے ہم اس خطے کے کروڑوں باسیوں کی غربت بے بسی یا دکھوں کو لے آئیں چاہے آئینی دستاویز اٹھا لائیں ، چاہے میثاق مدینہ کے حوالہ جات پیش کریں کہ اگر یہود کی ہم وطنی متحدہ قومیت کی بنیاد بن سکتی ہے تو اس خطہء ہند میں ہنود کے ساتھ کیوں نہیں؟ سچائی یہی ہے کہ ہم اپنے طاقتوروں کو نہ تو بائی پاس کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور نہ ہی ہم ان سے ٹکرا سکتے ہیں ،لہٰذا سیدھے سبھاؤ ان سے بات کرو ، دلائل کے ساتھ ان کی ذہنی کایا پلٹ کرو، پھر کسی بھلائی کی امید رکھو، ہر دو ممالک سے عوام کا جو بھی نمائندہ قومی قیادت کیلئے منتخب ہو، خطے کےعوام اس سے بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ جنوبی ایشیا میں بھڑکائی گئی منافرت کی آگ کو ٹھنڈا کرتے ہوئے دشمنی کو دوستی میں بدلے یا بدلنے کی کاوش کرے، شرارت کی جڑیا بون آف کنٹینش کو غیر معینہ یا طویل مدت کیلئے سرد خانے میں ڈال کر ترقی و خوشحالی کے نئے دریچے کھولے لیکن نہیں صاحب آپ کی جو بھی تمنائیں ہیں کروڑوں انسانوں کی جو بھی حسرتیں ہیں وہ سب ایک تنازع کی یرغمال بن کر رہ جائیںگی۔ ن لیگ نے الیکشن سے قبل ہمسائیوںسےاچھے تجارتی اور برادرانہ تعلقات کی بات کی لیکن اس کی راہ میں ایسی کنڈیشن ڈال دی گئی جس کا پورے ہونا ناممکن ہے، یوں لگا کہ ساری لفاظی محض ثواب دارین کیلئےتھی۔اس بند گلی سے نکلنے کی ایک ہی ترکیب ہے کہ طاقتوروں کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھا جائے۔ ہمسائیوں سےمنافرت کانتیجہ سوائے ہماری قومی بربادی کے کچھ نہیں نکلا،معاشی زبوں حالی ہی نہیں ملی ، ہماری عالمی ساکھ دو ٹکے کی ہو کر رہ گئی۔ اسی طرح ہماری سیاسی قیادت نے جب بھی عسکری قیادت سے ٹکراؤ کی پالیسی اپنائی اس کا نتیجہ سوائے سویلین اتھارٹی کی کمزوری اور آمریت کی مضبوطی کے اور کچھ نہیں نکلا۔آج ہمارے کچھ سیاسی اناڑی جس طرح بظاہر سویلین اتھارٹی کا راگ الاپ رہے ہیں اور طاقتوروں کے خلاف منافرت پھیلاتے ہوئے جس نوع کی محاذ آرائی کی راہ پر گامزن ہیں اس کی آؤٹ پٹ کیا ہے؟وہ شخص جسےطاقتوروں کے سامنے کھڑے ہونے یا استدلال سے اپنا موقف منوانے کا یارا تھا اسے پیچھے ہٹنا پڑا، طاقتوروں کو اپنی مرضی کا مادھو مل گیا جو کسر رہ گئی تھی وہ نئی کابینہ میں غیر منتخب افراد کی شمولیت سے سب کے سامنے ہے ،آگے چل کر آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات اور ماورائی ہدایات کے ساتھ اس نوع کے مزید کرشمے بھی سامنے آنے والے ہیں اگر آپ اپنے ساتھی سیاستدانوں کو چور چور کہتے ہوئے ان کے ساتھ اچھوتوں جیسا برتاؤ کرو گے تو آئندہ بھی ایسے ہی نتائج کیلئے تیار رہیں جو آج آپ لوگ بھگت رہے ہیں بہتر یہی ہے کہ آپ سب لوگ باہمی احترام و وقار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نہ صرف یہ کہ گفت و شنید کی راہ اپنائیں بلکہ داخلی و خارجی پالیسیوں میں خالص قومی مفاد کا تعین میرٹ پر استدلال سے کریں جس طرح ہمیں اس منفی ذہنیت کو بدلنا ہے کہ ہمارا ہمسایہ ہمارا دشمن ہے اسی طرح ہمارے طاقتور بھی غیر نہیں ہمارے اپنے ہیں،بشرطیکہ آزادی اظہار کی فضا میں اپنی بات منطقی استدلال اور وسیع تر انسانی مفاد میں منوائی جاسکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین