• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم شہباز شریف سے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈ اپور کی ملاقات کو مفاہمت کا آغازکہا جاسکتا ہے۔ دنیا میں بڑی بڑی جنگوں اور کشیدگیوں کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی نکالا گیا۔ اب جبکہ وطن عزیز میں عام انتخابات کو منعقد ہوئے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزرچکا ہے، انتخابی سیاست اور بیان بازی سے آگے بڑھ کرٹھوس کام ہوتا نظر آنا چاہئے۔ایسی فضا میں کہ انتخابات کے نتیجے میں مرکز میں مخلوط حکومت معرض وجود میں آئی، سندھ میں پیپلز پارٹی نے واضح کامیابی حاصل کی، بلوچستان میں پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی کے سرپروزیر اعلیٰ کا تاج رکھا گیا ،صوبہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے ارکان نے آزاد امیدواروں کی حیثیت سے بڑی کامیا بی حاصل کی ہے اور علی امین گنڈا پور وزیر اعلیٰ کے پی کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں دوباتیں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ انتخابات کے وقت سے جاری کشیدگی کو باہمی رابطوں اور افہام وتفہیم سے کم کیا جائے۔ دوسری یہ کہ گورننس اور کارکردگی کا مقابلہ ہوتا نظر آئےتاکہ عوامی مشکلات دور ہونے کی صورت بنے اور لوگ کارکردگی کا گراف دیکھ سکیں۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے اچھا کیا کہ اسلام آباد جاکر وزیر اعظم سے ملاقات کرلی اور کئی منفی قیاس آرائیوں کی راہ روک دی ۔ وزیر اعظم نے بدھ کے روز ہی وقت دیدیا اور اچھی فضا میں ایسی ملاقات ہوگئی جس سے کئی معاملات میں بہتری کی امیدیں کی جارہی ہیں۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور نے بتایا کہ ملاقات میں تحریک انصاف کے اسیر کارکنان،بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقاتوں پر پابندی، خیبرپختونخوا کو واجبات کی ادائیگی اور انتخابات میں مبینہ دھاندلی جیسے معاملات پر بات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پاکستان کے معاشی حالات معلوم ہیں، ایسا کوئی مطالبہ نہیں کریں گے جسے پورا کرنا وفاق کے لئے ناممکن ہو ۔ علی امین کے بیان کے بموجب وزیر اعظم نے مینڈیٹ کے احترام اور مکمل تعاون کا یقین دلایا ہےاور بانی پی ٹی آئی سے ملنے کی اجازت دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبے اور پاکستان کے مسائل حل کرنے ہیں۔ بجلی کی مد میں ہمارے صوبے کابہت بڑا حصہ ہے اور آئندہ بھی ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کا آئی ایم ایف کو خط لکھنے کا مقصد ہرگز یہ نہ تھا کہ پاکستان کو قرض نہ دیا جائے، ان سے کہا گیاتھا کہ فری اینڈفیئرالیکشن کی جوشرط آپ نے عائد کی تھی اس کو دیکھ لیں ایک سوال کے جواب میں علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ جب وزیر اعظم پشاور آئے تو اس وقت میں وہاں موجود نہ تھا جبکہ وزیر اعظم پشاور نہیں چار سدہ گئے تھے۔ اس موقع پر احسن اقبال نے کہا کہ وزیر اعظم نے کے پی کے واجبات ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے جبکہ وزیر اعلیٰ کی شکایت پر متعلقہ وزارت کو ہدایت کردی گئی ہے کہ سحری اور افطار کے اوقات میں کسی قسم کی دشواری نہیں ہونی چاہیے ۔احسن اقبال نے بتایا کہ خیبر پختونخوا اور وفاق کی مشترکہ ٹیم تشکیل دی جائے گی جو صوبے کے مسائل حل کرنے کے لئے وفاق کے ساتھ مل کرکام کرے گی۔وزیر اعلیٰ نے ان قیدیوں کا بھی ذکر کیا جن کے خلاف کوئی شواہد نہیں ہیں۔ وزیر اعظم نے یقین دلایا کہ وہ یقینی بنائیں گے کہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔ احسن اقبال کے مطابق ملاقات کا خلاصہ یہ ہے کہ سیاست اپنی اپنی، مگر ریاست سانجھی ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ مذکورہ ملاقات کے بعد وفاقی اور کے پی حکومت کے درمیان معاملات زیادہ سبک رہیں گے ، کئی پارٹیوں کے درمیان بیانات کے لب ولہجے میں بھی کچھ نہ کچھ فرق آئے گا، وفاق سمیت ملک کے تمام حصوں میں تیز رفتاری سے کام ہوتا نظر آئے گا اور ملک ترقی کی منزلیں سر کرے گا۔

تازہ ترین