• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیارے بودی سرکار تشریف لائے ہیں، سخت غصے میں ہیں، آج پورا جلال نظر آ رہا ہے اور آتے ہی مجھ پر چڑھائی کر دی ہے، ابھی کوئی بات پوچھی نہیں تو کہنے لگے’’چپ رہو! اگر تم پورا سچ لکھ نہیں سکتے، چھاپ نہیں سکتے، بول نہیں سکتے تو مجھ سے کیوں پوچھتے ہو؟ چھوڑو کوئی اور کام کرو، کوئی اور بات کرو‘‘۔ یہ جملے سننے کے بعد میں نے عرض کیا سرکار! اپنی تسلی کیلئے آپ سے بہت کچھ پوچھ لیتا ہوں، پورا سچ معاشرے کو دکھا دیا جائے تو آگ لگ جائے گی، اس لئے کوشش کرتا ہوں کہ اتنی ہی بات بتاؤں جو برداشت ہو سکے۔ میں نے یہ جملے قدرے ادب و احترام اور دھیمی آواز میں ادا کیے مگر بودی سرکار کا غصہ کہاں ٹھنڈا ہونے والا تھا، کہنے لگے’’چھوڑو ان باتوں کو، حقہ منگواؤ، گڑ والی چائے منگواؤ اور خوشیے کی برفی منگواؤ‘‘۔ میں نے عرض کیا سرکار! میرے دوست نوید عالم نے کڑوا تمباکو بھجوایا ہے، حقہ ابھی حاضر ہو جاتا ہے، گڑ والی شاندار چائے بھی آ جاتی ہے مگر خوشیے کی برفی نہیں ہے کیونکہ میاں چنوں سے کوئی آیا نہیں، میں پچھلے دنوں ملتان گیا تھا اور اپنے شاگرد عزیز شیراز علی خان سنجرانی کو ساتھ لے کر اپنے بہت پرانے اور پیارے دوست مخدوم جاوید ہاشمی سے مل کر آ گیا ہوں، وہاں ہاشمی صاحب کے نواسے قاسم سے بھی ملاقات ہوئی مگر جاوید ہاشمی کے داماد زاہد بہار ہاشمی ناراض ہو گئے، میں واپس لاہور آ گیا تو زاہد بہار ہاشمی کا پیغام آیا کہ آپ نے ملتان آنے سے پہلے مجھے کیوں نہیں بتایا، ملتان سے ہو کر چلے بھی گئے، بس اس سے اگلی باری کا کہہ کر بات ختم کی البتہ میرے پاس اس وقت لالہ موسیٰ سے نونے کی برفی آئی ہوئی ہے، وہ پیش کر دیتا ہوں۔ بودی سرکار نے میری درخواست منظور کی تو میں نے سیاسی ٹھرک کے طور پر ایک دو باتیں چھیڑ دیں ، اس پر بودی سرکار بولے’’میں نے پچھلی مرتبہ بھی تمہیں سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ تمہیں جو کچھ نظر آ رہا ہے وہ نہیں ہے، بہت کچھ اور ہونے والا ہے، مجھے حیرت ہے تم ایک دیہاتی آدمی ہو، دریاؤں کو جانتے ہو، چپ چاپ بہتے ہوئے دریا کو دیکھ کر تمہیں گرداب اور گھمن گھیریاں کیوں نظر نہیں آتیں۔ تمہیں پتہ ہے کہ مہنگائی کا سخت طوفان سر پر ہے، تمہیں معلوم ہے کہ لاوا پھٹنے والا ہے، تمہیں اندازہ نہیں کہ لوگوں نے خوف کی چادر اتار کر دور پھینک دی ہے، تمہیں لوگ بے خوف ہوتے ہوئے نظر آئیں گے، تمہیں حالات کی سنگینی کا اندازہ ہی نہیں، اب جو کہا جائے گا لوگ نہیں مانیں گے، لوگ اپنی منوائیں گے‘‘۔ آج بہت دنوں بعد اکیلے بیٹھنے کا اتفاق ہو رہا ہے تو مجھے بتائیں کہ آپ یہ طوفان کی باتیں کیوں کر رہے ہیں؟ بودی سرکار نے میری طرف غور سے دیکھا، ان کا چہرہ سرخ ہوا اور کہنے لگے’’میں اکیلا تھوڑی کہہ رہا ہوں، اب تو پورا جگ کہہ رہا ہے، میں نے تمہیں بہت پہلے کہہ دیا تھا، تم میری باتوں پر یقین نہیں کرتے، تم بہت نادان ہو، دنیا کو اس وقت پتہ چلتا ہے جب آندھی شروع ہوتی ہے اور ہمیں پہلے بتا دیا جاتا ہے کہ آندھی کالی ہو گی یا لال ،اب تو تمہارے سیاسی رہنما بھی ایسی باتیں کرنا شروع ہو گئے ہیں، تم نے دیکھا نہیں کہ دو روز پہلے اڈیالہ میں اسیر ایک سیاسی قیدی نے کیا کہا ہے؟ اس نے کہا ہے’’ادارے تباہ ہو چکے ہیں، انہوں نے مینڈیٹ چھین کر قوم کی امید ختم کر دی ہے، میری ساری پیش گوئیاں سچ ثابت ہوئیں، اب بتا رہا ہوں پاکستان میں سری لنکا والا کام ہونے جا رہا ہے، اب مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا اور عوام باہر نکل آئیں گے‘‘۔ تمہارا یہ اسیر سیاسی رہنما بہت دور اندیش ہے، اس نے اس وقت سوشل میڈیا کا استعمال شروع کر دیا تھا جب تمہاری باقی سیاسی پارٹیاں سوشل میڈیا کی الف ب سے بھی واقف نہیں تھیں، آج یہی سوشل میڈیا اس کی طاقت بن چکا ہے۔ غور سے سنو، حالات سری لنکا والے نہیں، اس سے زیادہ سنگین ہوں گے، تمہیں انقلاب فرانس کی یاد آئے گی، تمہیں پتہ ہے تمہارے پورے ملک میں کرپشن کا زہر سرایت کر چکا ہے، تمہارے ملک کا کوئی ادارہ ایسا نہیں جہاں کرپشن کا زہر نہ ہو، اس زہر کو ختم کرنے کیلئے پتہ نہیں کون سا تریاق استعمال کرنا پڑے ، لوگ اپنا حق مانگیں گے، صرف مانگیں گے نہیں، چھینیں گے، اس چھینا جھپٹی میں پتہ نہیں کیا سے کیا ہو جائے۔ ایک بہت بڑی انقلابی تحریک دستک دے رہی ہے، دنیا میں بھی حالات بدل رہے ہیں، امریکی کانگریس نے 20 مارچ کو ڈونلڈ لو کو طلب کیا ہے، وہ پتہ نہیں اس سے کیا کیا پوچھیں لیکن ہم اپنے ملک کی بات کرتے ہیں جہاں سے کئی لوگ بھاگیں گے، کچھ لوگ پوسٹنگ کے نام پر بھاگیں گے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایسے لوگوں کو بیرون ملک چین آ جائے گا ؟ ایسا نہیں ہو گا، بپھرے ہوئے لوگ ان کا چین وہاں بھی برباد کر دیں گے، بپھرنے والوں کے دل پاکستان میں بستے ہیں اور جب دل بپھر جائیں تو کیا کہا جائے کہ حضرت سلطان باہوُ کہتے ہیں’’ دل دریا سمندروں ڈونگھے تے کون دلاں دیاں جانے ہوُ ‘‘آپ کو پتہ ہے ، میں نے کئی بند کمروں میں اظہر سہیل کا یہ پنجابی شعر گونجتے ہوئے سنا ہے کہ

ویلا خورے کیہڑا نقش مٹا دیوے

مینوں رج کے ویکھ لو میرے نال دیو

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین