• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی تعمیر و ترقی ریاستی اداروں میں ہم آہنگی کے بغیر ممکن نہیں۔ بدقسمتی سے ہماری تاریخ کے بیشتر ادوار میں ایسا نہیں ہوسکا ۔ تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ صورت حال آج ماضی کے مقابلے میں مثبت طور پر تبدیل شدہ نظر آتی ہے۔ موجودہ عسکری قیادت پارلیمنٹ اور آئین کی بالادستی ہی کو قومی تعمیر و ترقی کا واحد راستہ تسلیم کرتی ہے جبکہ ہماری عدالتی قیادت کی جانب سے بھی ماضی میں آئین شکن اقدامات کے حق میں دیے گئے عدالتی فیصلوں کا غلط ہونا برملا تسلیم کیا جارہا ہے۔اس طرح تمام ریاستی اداروں کے مقررہ آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دینے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ اس خوشگوار تبدیلی کا ایک واضح مظاہرہ گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف کے جی ایچ کیو راولپنڈی کے دورے کی شکل میں ہوا۔ وزیراعظم اور کابینہ کو عسکری تیاریوں ، علاقائی و قومی سلامتی اور دہشت گردی کیخلاف جاری کارروائیوں سمیت خطرات کے حوالے سے آگہی فراہم کی گئی۔ وزیراعظم اور کابینہ اراکین نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کی قربانیوں اور پیشہ ورانہ مہارتوں کولائق ستائش قرار دیا ۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان آگے بڑھنے کے لیے بنا ہے اور مسلح افواج پاکستان کے پرامن عروج کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں جبکہ آرمی چیف نے صراحت کی کہ افواج پاکستان کی جانب سے سیکورٹی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے حکومت کو مکمل تعاون اور حمایت فراہم کی جائے گی۔ موجودہ آرمی چیف جنرل سیدعاصم منیر نے سابق کثیرالجماعتی حکومت کے دور میں معاشی بحران کے خاتمے اور ہمہ جہت ترقی کے راستے پر پیش رفت کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف کو خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی تجویز پیش کرکے قومی ترقی کی جدوجہد میں سیاسی قیادت کے ساتھ تعاون کی ایک غیرمعمولی مثال قائم کی تھی۔اب نئی منتخب سیاسی حکومت کے قیام کے بعد خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے منصوبے پر تیزرفتار پیش قدمی کی راہ ہموار ہوگئی ہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ دوست ملکوں کو زراعت، معدنیات، توانائی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دینے کا یہ منصوبہ برگ وبار لائے گا اور ملک میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری نیز روزگار کے مواقع اور برآمدات میں اضافے کی شکل میں اس کے عملی نتائج سے عوام مستفید ہوں گے ۔بلاشبہ درپیش چیلنج بہت سخت ہیں لیکن قومی اتحاد و یگانگت کے ذریعے ان سے کامیابی سے نمٹا جاسکتا ہے۔ تحریک انصاف کے ساڑھے تین سالہ دور میں معاشی مشکلات کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ خارجہ تعلقات میں متعدد ملکوں کے ساتھ رونما ہونے والی سردمہری بھی تھی تاہم موجودہ حکومت نے اختیارات سنبھالتے ہی اس سمت میں بھی بہتری کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ چینی قیادت کی جانب سے معاشی مشکلات کے خاتمے کے لیے بھرپور تعاون اور سی پیک کے دوسرے دور کے سرگرم آغاز کی یقین دہانی کے علاوہ امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات میں بہتری اور مختلف شعبوں میں تعاون کی بحالی کا عمل شروع ہوگیا نیز سعودی عرب، امارات، قطر ، بحرین، ترکی اور ایران سمیت خارجہ تعلقات کے محاذپر حکومت کے ابتدائی چند روز ہی میں واضح اور امید افزاء پیش رفت نظر آرہی ہے۔ تاہم حالات میں بلارکاوٹ بہتری کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے ریاستی اداروں اور حکومت و پارلیمنٹ میں ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ خود پارلیمان کی کارروائیوں کابھی شائستہ، بامقصد اور تعمیری ہونا ضروری ہے۔ پارلیمنٹ کو حکومت اور اپوزیشن کی باہمی جنگ و جدل کامیدان نہیں بنے رہنا چاہیے ، قانون سازی میں اپوزیشن کو مثبت تنقید اور تجاویز کے ذریعے اپنا کردار تعمیری طور پر ادا کرنا چاہیے ، پارلیمانی بحثوں کو مہذب اور مدلل ہونا چاہیے اور حکومت کو بھی اپوزیشن کی معقول تجاویز کو تسلیم کرنے میں لیت و لعل سے کام نہیں لینا چاہئے۔

تازہ ترین