• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ حکومت کو قومی معیشت کی بحالی کے جس قدر اہم اور دشوار چیلنج کا سامناہے اس نے کم سے کم ممکنہ مدت کے اندر اس سمت میں نتیجہ خیز پیش رفت کو بلاشبہ وزیر اعظم کی اہم ترین ذمے داری بنادیا ہے۔ موجودہ حکومتی سیٹ اپ میں معیشت کے حوالے سے متعدد وزارتیں قائم ہیں جن کی کارکردگی میں ربط اور ہم آہنگی کیلئے ایک مرکزی بندوبست وقت کی بڑی ضرورت ہے اورباخبر ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کی براہ راست نگرانی میں اس نوعیت کے ایک مؤثر نظام کی تشکیل کا جائزہ لیا جارہا ہے ۔ آئی ایم ایف پروگرام کے نفاذ کے علاوہ کابینہ ڈویژن ایک خصوصی یونٹ قائم کرنے کی تجویز پر بھی غور کر رہا ہے تاکہ ای سی سی کے فیصلوں کے نفاذ کی نگرانی ہوسکے۔ اس غور و خوض کی روشنی میں بہتر ادارہ جاتی میکنزم کی ضرورت سامنے آئی تاکہ ملک کو پائیدار اقتصادی ترقی اور خودانحصاری کی راہ پر ڈالا جاسکے۔وزیراعظم کو بین الوزارتی اقتصادی ایکشن کمیٹی کے قیام کی تجویز بھی دی گئی ہے جس کے پاس خصوصی مینڈیٹ ہو کہ وہ اقتصادی رابطہ کمیٹی میں اچھی طرح سوچ بچار کی ہوئی تجاویز پیش کر سکے اور اس کے فیصلوں کو نافذ کراسکے۔ تجویز میں کہا گیا ہے کہ بین الوزارتی اکنامک ایکشن کمیٹی کو خزانہ، منصوبہ بندی، تجارت، صنعت، ریونیو، سرمایہ کاری بورڈ، پٹرولیم، بجلی، قومی غذائی سیکورٹی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارتوں کے سیکریٹریوں پر مشتمل ہونا چاہیے اور وزیر اعظم چاہیں تو اس کمیٹی کی صدارت بھی خود ہی کرسکتے ہیں۔ توقع کی جارہی ہے کہ اس تجویز پر عمل درآمد سے ملک کی اقتصادی بحالی کے لیے تمام شراکت داروں اور اہم کھلاڑیوں سے مطلوبہ توجہ مل سکے گی۔رپورٹ کے مطابق اس مشاورت میںآئی ایم ایف پروگرام کے نفاذ سے متعلق وزیراعظم ہائوس کا کردار بھی زیر بحث آیا ۔ آئی ایم ایف کیساتھ جاری اسٹینڈ بائی بندوبست چونکہ جلد ہی ختم ہوجائیگا اور حکومت کو آئی ایم ایف سے ایک اور توسیع شدہ سہولت کا پروگرام لینا ہوگا اسلئے یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ اس پروگرام کے نفاذ کی نگرانی کی ذمہ داری بھی وزیر اعظم آفس ہی کو تفویض کی جائے۔ اقتصادی بحالی کی جدوجہد کی کامیابی کے حوالے سے یہ تجاویز یقینا بہت اہم ہیں اور ان پر عمل درآمد بہتر نتائج کا ذریعہ بن سکتا ہے۔معاشی بحران سے نجات ہی موجودہ حکومت کا اصل مینڈیٹ ہے۔ معیشت کی بحالی کے بغیرکسی بھی شعبہ زندگی میں بہتری ممکن نہیں۔ تاہم سخت فیصلوں کا ہدف مفلوک الحال عوام الناس کے بجائے مراعات یافتہ طبقات کو بنایا جانا چاہیے ۔ معاشی عمل میں نجی شعبے کی بھرپور شرکت یقینا خوش آئند نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔ حصول آزادی کے بعد تین دہائیوں تک نجی شعبے کی سرگرم شرکت ہی کی وجہ سے ہماری معاشی ترقی مثالی تھی اور آج کے کئی انتہائی خوشحال ملک اسی ماڈل کو اپنا کر ترقی کے بام عروج پر جاپہنچے لیکن بدقسمتی ہمارے ہاں تمام صنعتوں، بینکوں اور نجی اداروں کو سرکاری تحویل میں لینے کا تجربہ کیا گیا جس کے تباہ کن نتائج رونما ہوئے۔ ادارے کرپٹ سرکاری مشینری اور حکام کے ہاتھوں برباد ہوگئے اور ہم اب تک خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں پر عوام کے ٹیکسوں کی خطیر رقوم ضائع کررہے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ معاشی بحالی کے لیے سرکاری اخراجات میں آخری حد تک کمی، ٹیکسوں کے دائرے میں منصفانہ توسیع اور نجکاری سمیت تمام ضروری اقدامات جلدازجلد عمل میں لائے جائیں۔ معاشی بحالی کے عمل کو ہر قسم کی رکاوٹوں اور تنازعات سے پاک رکھا جانا ضروری ہے اور اس کام میں بھرپور تعاون پوری قوم کی ذمے داری ہے۔ اپوزیشن کو بھی مخالفت برائے مخالفت کے بجائے مہذب ملکوں کی طرح پارلیمان کے اندر اور باہر تعمیری تنقید اور مثبت تجاویز کا راستہ اپنانا چاہیے تاکہ ہمارے منتخب ایوان ایک شائستہ اور باوقار قوم کے نمائندہ نظر آئیں۔

تازہ ترین