بات چیت: رؤف ظفر، لاہور
فنونِ لطیفہ (Fine Arts) کو تمام علوم کی ماں یعنی’’مدر آف آل اسٹڈیز‘‘ کہا جاتا ہے۔ زندگی کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو، جس کے سوتے اِس سرچشمے سے نہ پُھوٹتے ہوں۔ فائن آرٹس، پہلے صرف چند شعبوں پر مشتمل تھا،مگر اب یہ مصوّری آرٹ، فنِ تعمیر، موسیقی، خطّاطی، تھیٹر، ادب، شاعری، نقّاشی، عکّاسی اور دیگر لاتعداد شعبوں پر محیط ہے۔ ڈیزائننگ بھی اس کا ایک اہم شعبہ ہے، جس میں تخلیق کار تصاویر، تحریر، خاکوں اور ابلاغ کے دیگر لاتعداد ذرائع بروئے کار لا کر اپنا پیغام دوسروں تک پہنچاتا ہے۔
گرافک ڈیزائننگ دورِ حاضر میں نہایت تیزی سے ترقّی کرتا ہوا ایک ایسا شعبہ ہے، جس سے امریکا، چین، بھارت، کوریا اور دیگر ممالک اربوں ڈالرز کا زرِمبادلہ کمار ہے ہیں۔ پاکستان اِس شعبے میں اِس وقت کہاں کھڑا ہے اور کیا ہم بھی اس کے ذریعے زرِمبادلہ کما سکتے ہیں، اِس سلسلے میں گزشتہ دنوں لاہور کالج فار وومین یونی ورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزائن اینڈ ویژول آرٹس کے شعبہ گرافک ڈیزائننگ کی چیئرپرسن، ایسوسی ایٹ پروفیسر، عائشہ صدیقہ سے خصوصی بات چیت ہوئی۔
عائشہ صدیقہ نے فائن آرٹس کی تعلیم (گریجویشن اور MFA) پنجاب یونی ورسٹی کے شعبہ فائن آرٹس سے، جب کہ لاہور کالج فار وومین یونی ورسٹی برائے خواتین سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔ کچھ عرصہ نجی شعبے میں گیم ڈیزائننگ اور اینی میشن کے شعبے میں تحقیقی اور عملی کام بھی کیا، پھر لاہور کالج فار وومین یونی ورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزائن اینڈ ویژول آرٹس کے شعبہ گرافک ڈیزائننگ سے وابستہ ہوگئیں۔
س: کیا یہ بات درست ہے کہ بیش تر علوم نے فائن آرٹس ہی سے جنم لیا؟
ج: جی، ایسا ہی ہے۔ بھارت میں اجنتا کے غاروں پر بنے نقوش و نگار ہوں یا فراعنۂ مِصر کے دَور کی تصاویر و تحاریر سے بَھری دیواریں، سب فنونِ لطیفہ ہی کا کرشمہ ہیں۔ اِسی طرح یونان، بابل اور خود پاکستان میں موہن جو دڑو کی تہذیب میں فنونِ لطیفہ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔فی الحقیقت، انسانی تہذیب کی ترقّی اور ارتقاء میں فنونِ لطیفہ کا کلیدی کردار ہے۔
س: فنونِ لطیفہ کا ماضی تو شان دار ہے، دورِ حاضر کی کیا صُورتِ حال ہے؟
ج: فنونِ لطیفہ کے کرشمات کو چند جملوں میں سمیٹنا ممکن نہیں۔ مَیں اگر صرف گرافک ڈیزائننگ کی بات کروں، تو اس قلم سے لے کر، جو آپ کے ہاتھ میں ہے، گہرے سمندروں میں چلنے والی آب دوزوں اور چاند یا مریخ پر لینڈ کرنے والے خلائی جہازوں کی ڈیزائننگ تک میں گرافک ڈیزائنرز ہی کا اہم کردار ہے، جو بورڈ پر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو خاکوں اور گرافکس کی شکل دیتے ہیں، جن میں بعدازاں ماہرین حقیقت کا رنگ بَھرتے ہیں۔
جیسے ملبوسات بنانے والے لگژری فیشن برانڈ، پراڈا (PRADA)کو امریکا کے خلائی تحقیقاتی ادارے، ناسا نے خلا بازوں کے لیے ایک جدید ترین خلائی سوٹ ڈیزائن کرنے کا کام سونپا ہے اور یہ خلا باز 2025ء میں چاند کے گرد ایک کیپسول میں چکر لگائیں گے۔ غرض، آپ کے گھر میں فرنیچر ہو، کچن کی اشیاء یا الیکٹرانک مصنوعات، یہ سب گرافک ڈیزائنرز کی صلاحیتوں ہی کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔
س: اِس اعتبارسے تو گرافک ڈیزائننگ انڈسٹری کو اوّلیت حاصل ہونی چاہیے؟
ج: جی اِسی لیے یہ دورِ حاضر میں آئی ٹی کے بعد سب سے زیادہ ترقّی کرنے والا شعبہ ہے۔ پوری دنیا میں اِس شعبے کی مارکیٹ کا سالانہ حجم 50ارب ڈالرز سے زیادہ ہے۔ امریکا میں ایک گرافک ڈیزائنر 30سے 40ڈالر فی گھنٹہ کما لیتا ہے۔ہمارے ہم سایہ مُلک، بھارت نے بھی آئی ٹی کے بعد اس پر خاصی توجّہ دی ہے، جہاں اس کی سالانہ آمدنی 19ہزار کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔
س: پاکستان میں کیا صُورتِ حال ہے؟
ج: 100سالہ قدیم تعلیمی ادارے، لاہور کالج فار وومین یونی ورسٹی، پنجاب یونی ورسٹی کا شعبہ فائن آرٹس اور نیشنل کالج آف آرٹس (NCA) کا شمار پاکستان میں فنونِ لطیفہ کی تعلیم دینے والے ابتدائی تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ ایک طویل عرصے تک طلباء و طالبات فائن آرٹس کے تعلیمی اداروں سے محروم رہے، لیکن اب پاکستان میں65یونی ورسٹیز اور کالجز (ریگولر، پرائیویٹ) فائن آرٹس میں بیچلرز ڈگری دے رہے ہیں، لیکن پی ایچ ڈی کی سہولت صرف گنی چُنی یونی ورسٹیز ہی میں دست یاب ہے۔
سرکاری اداروں میں کم تن خواہوں کی وجہ سے بہت کم اساتذہ آتے ہیں، جب کہ پرائیویٹ سیکٹر بھی بے روزگاری کی وجہ سے ان کو کم مشاہرے پر رکھتا ہے۔ مجموعی طور پر ایسے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے بہت کم ہیں، جو گرافک ڈیزائننگ کے شعبے میں جوہرِ قابل کی حوصلہ افزائی کر سکیں۔ اِس لیے آئی ٹی سیکٹر کی طرح گرافک ڈیزائننگ کے شعبے کی بھی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے کہ اہمیت میں یہ اس سے کسی طرح کم نہیں۔
س: پاکستان میں گرافک ڈیزائننگ کو کِن جدید خطوط پر استوار کیا جاسکتا ہے؟
ج: بے شمار راستے کُھلے ہیں۔ہمارے نام وَر خطّاطوں کے شہ پارے اسلامی ممالک میں بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ ہماری یونی ورسٹی سے وابستہ ایک نام وَر خطّاط، عرفان احمد خان ایران میں منعقدہ ایک بین الاقوامی نمائش میں ایران کا سب سے بڑا اور معتبر ایوارڈ حاصل کر چُکے ہیں۔ کراچی کی ایک یونی ورسٹی کی گریجویٹ ہالی ووڈ فلمز میں اسپیشل ایفیکٹس کے حوالے سے شہرت حاصل کر چُکی ہیں۔ اِسی طرح آرکٹیکچر، مصوّری، فلم میکنگ اور موسیقی میں پاکستان دنیا بَھر میں جانا جاتا ہے، لیکن مَیں یہاں نسبتاً ایک نئی فیلڈ کا ذکر کرنا چاہتی ہوں، جو ویڈیو گیم ڈیزائننگ اور اینی میشن کے نام سے موسوم ہے۔
مجھے درس و تدریس سے وابستہ ہونے سے قبل اس پر کافی کام کا موقع ملا۔ گیم ڈیزائننگ میں گرافک ڈیزائنر، کمپیوٹرز پر کھیلے جانے والے گیمز کے کردار تخلیق کرتا ہے، جسے ماہرین بعد میں حقیقت کا رُوپ دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے اب تک پاکستانی بچّے کمپیوٹر یا ٹیب پر جو گیمز کھیلتے ہیں، اُن کے کردار یورپی، چینی یا انڈینز ہوتے ہیں۔اکثر گیمز میں لڑائی، مارکٹائی، خون خرابا، تشدّد یا مہم جوئی دِکھائی جاتی ہے۔ ان گیمز میں اخلاقی اقدار پر کوئی دھیان نہیں دیا جاتا۔ یہ گیمز کم سِن بچّوں کے اذہان پر، جو شخصیت اور کردار سازی کے مراحل طے کر رہے ہوتے ہیں، انتہائی بُرے اور زہریلے اثرات مرتّب کرتے ہیں۔
پاکستانی گرافک ڈیزائنرز اس کے مقابلے میں ایسے کردار ڈیزائن کر سکتے ہیں، جو اسلام اور ہماری اقدار سے ہم آہنگ ہوں۔ یہ گیمز پاکستان کے روایتی کھیلوں پر مبنی ہو سکتے ہیں۔ ان میں نماز، روزے، وضو اور دیگر امور کی تعلیم دی جاسکتی ہے۔نیز، نام وَر مسلم شخصیات کی زندگی اور اُن کے کارناموں پر مبنی کہانیاں بھی ویڈیو گیمز کی صُورت پیش کی جاسکتی ہیں۔ اِسی طرح مکی مائوس، سیمین کارٹونز اور کہانیوں کی جگہ ہماری اپنی تہذیب و ثقافت سے ہم آہنگ کارٹونز بنائے جاسکتے ہیں۔گویا، یہ ایک وسیع میدان یا شعبہ ہے۔
تُرکی نے اِس سلسلے میں پہل کی تھی اور اپنے مُلک میں تیار کردہ ویڈیو گیمز میں’’ جان‘‘ نامی ایک لڑکے کا کردار متعارف کروایا تھا، جو بے حد مقبول ہوا۔ اگر پاکستان انگریزی، اردو اور عربی میں ایسے ویڈیو گیمز بنائے، تو اسلامی ممالک کی مارکیٹس اس کے لیے بہت منافع بخش ثابت ہو سکتی ہیں۔اِس وقت پوری دنیا میں ویڈیو گیمز کا کاروباری حجم 184ارب ڈالرز پر محیط ہے اور یہ اِتنی تیزی سے پھیل رہا ہے کہ 2026ء میں یہ رقم205ارب ڈالرز تک پہنچ جائے گی۔ خود پاکستان میں موبائل گیمنگ بزنس کے امکانات بہت روشن ہیں۔
2022ء میں پاکستان میں موبائل گیمنگ مارکیٹ کی مالیت کا اندازہ 27کروڑ ڈالرز لگایا تھا، جس کے 2025ء میں 45کروڑ ڈالرز تک پہنچنے کا امکان ہے۔ اس بزنس کی ترقّی میں گرافک ڈیزائنرز اور گیم ڈویلپرز اہم ترین کر دار ادا کر سکتے ہیں، جب کہ اِس ضمن میں پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ اور ڈویلپرز کی مالی معاونت کرنے والے ادارے اہم کر دار ادا کر سکتے ہیں۔
س: ویژل آرٹس اور گرافک ڈیزائنرز کا مستقبل کیا ہے؟
ج: اگرچہ آرٹ اور فنونِ لطیفہ کے مستقبل سے متعلق کوئی پیش گوئی تو ممکن نہیں، لیکن جو ثقافتی، سوشل اور ٹیکنالوجیکل ترقّی ہو رہی ہے، اس سے آرٹسٹ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔لہٰذا، اسے ان تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہو کر اپنا آرٹ ورک کرنا ہوگا۔مَیں مستقبل میں اِس شعبے میں ڈیجیٹل آرٹ کی مقبولیت دیکھ رہی ہوں۔اِسی طرح، فائن آرٹس میں عالمی مسائل زیادہ اجاگر کیے جائیں گے، جیسے ماحولیاتی تبدیلی، سماجی عدم مساوات یا انسانی حقوق وغیرہ۔مستبقل میں سماجی تبدیلیوں کے لیے آرٹ کی قوّت ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کی جائے گی۔
سائنس، ٹیکنالوجی اور فنونِ لطیفہ کا امتزاج و اشتراک انسانی صلاحیتوں کو آزمانے کے لیے ایک ایسا نیا موڑ ثابت ہوگا، جس سے نوعِ انسانی کی ترقّی کے نئے راستے دریافت ہوں گے۔ فنونِ لطیفہ کا مستقبل روشن امکانات سے بَھرا ہوا ہے، البتہ یہ آرٹسٹ پر منحصر ہے کہ وہ اس سے کس طرح فائدہ اُٹھاتا ہے۔مثلاً آن لائن آرٹ ورک سے وہ بیک وقت لاکھوں افراد تک رسائی حاصل کر سکتا ہے، کیوں کہ اب ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل میڈیا نے کرّۂ ارض کی جغرافیائی سرحدیں ختم کر دی ہیں۔
یوں سمجھیے، اگر مصوّری یا خطّاطی کی نمائش ہو، تو اسے ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے لاکھوں افراد دیکھ سکتے ہیں، جب کہ چند دہائیاں قبل اِس کا تصوّر تک ممکن نہیں تھا۔مختصر یہ کہ پاکستانی ماہرینِ فنونِ لطیفہ کو بھی جدید زمانے کی ان تبدیلیوں کے پس منظر میں اپنے آرٹ ورک کو ڈھالنا ہوگا اور اِس سلسلے میں اُنھیں حکومت کی سرپرستی درکار ہوگی۔
س: اپنے ادارے سے متعلق کچھ بتائیے۔کہا جاتا ہے کہ مستقبل میں اِس شعبے پر خواتین کی چھاپ زیادہ ہوگی؟
ج: لاہور کالج فار وومین یونی ورسٹی مُلک کے اُن قدیم ترین اداروں میں شامل ہے، جہاں فائن آرٹس میں گریجویشن تک تعلیم دی جاتی تھی، بلکہ اب یہ اُن چند اداروں میں شامل ہے، جہاں فائن آرٹس میں پی ایچ ڈی بھی کروائی جاتی ہے اور خطّاطی کو ایک علیٰحدہ ڈسپلن کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔یہاں اِس وقت گرافک ڈیزائننگ، خطّاطی، ٹیکنالوجی گرافک ڈیزائن اور سرامکس انٹیرئیر ڈیکوریشن کی تعلیم دی جارہی ہے۔
ہماری تعلیم ایک طرح کی جاب اورینٹڈ ہے، یعنی ملازمت آسانی سے مل جاتی ہے اور اِس فن کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ آپ فارغ التحصل ہونے کے بعد نوکریوں کے چکر میں پڑنے کی بجائے خود اِس قابل ہوتے ہیں کہ دوسروں کو ملازمتیں دے سکیں، بلکہ طالبات جب اپنے آرٹ ورک کی نمائش کرتی ہیں، تو فائن آرٹس کے ادارے، ایڈورٹائزنگ کمپنیز اور دوسرے متعلقہ ادارے انہیں ہائر کرلیتے ہیں۔ طالبات کے آرٹ ورک کی مستقل نمائش کے لیے ہم نے ایک علیٰحدہ عمارت کالج سے باہر مختص کی ہے، جہاں وہ اپنے فن پاروں کی نمائش کر سکیں گی۔ہمارے ہاں گرافک ڈیزائننگ ڈیپارٹمنٹ سے ہر سال500طالبات فارغ التحصیل ہوتی ہیں۔
ہماری طالبات نے یونی ورسٹی کا ایک میوزیم، شعبۂ فارسی کے تعاون سے بنانے میں بھی مدد کی ہے، جہاں یونی ورسٹی کی 100سالہ تاریخ کو تصاویر اور گرافکس میں بیان کیا گیا ہے، جب کہ ہمارے گرافک ڈیزائنرز نے بھی اسے ایک میوزیم کی شکل دی ہے۔ اب تک ہمارے یہاں ڈیزائن کے شعبے کو خطّاطی سے دُور رکھا گیا، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ ہماری طالبات کے بنائے ہوئے خطّاطی کے نمونے عرب امارات اور دیگر اسلامی ممالک میں خریدے جاتے ہیں۔ مجھے ایک مطالعاتی دَورے کے دوران چین جانے کا موقع ملا، تو دیکھا کہ وہ بھی ہماری خطّاطی کی طرح اپنے روایتی آرٹ کو اپنے رسم الخط میں برش اور قلم کے ذریعے اجاگر کر رہے ہیں۔
چین آئی ٹی میں بہت آگے ہے، لیکن وہ طلبہ کو سب سے پہلے کمپیوٹر کی بجائے مینوئل یعنی ہاتھ سے کام کی تربیت دیتے ہیں اور ان کا یہی روایتی اسٹائل، پوری دنیا میں’’ چائینز آرٹ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ ہم اپنے انسٹی ٹیوٹ میں ایسا ہی کر رہے ہیں۔ہم نے ادارے کی توسیع اور بہتری کے لیے جو بھی اقدامات کیے، اُن میں یونی ورسٹی کی وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر شگفتہ ناز نے بھرپور تعاون کیا۔ دراصل، انٹرنیٹ نے آرٹ ورک کو مقامی سے بڑھ کر عالمی پہچان دے دی ہے اور ہم اسی نقطۂ نظر سے طالبات کی تربیت کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف اپنے مُلک بلکہ عالمی سطح پر بھی فنونِ لطیفہ کے ثمرات سے فائدہ اُٹھا سکیں۔