• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

واضح رہے جب عمران دور میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے اور بلیک لسٹ سے بچنے کیلئے کامیاب حکومتی اقدامات اور سفارتی کوششوں کے بعد پاکستان حصول مقصد کے قریب تر آگیا تھا تب حکومتی موقف (کیس) کو قومی مطالبے میں ڈھالنے کیلئے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا تعاون درکا ر ہوا لیکن باوجود اسکے کہ حکومت بتدریج فورم (ایف اے ٹی ایف) کے اعتراضی نکات کو کم کرتے کرتے اختتام کے قریب آگئی تھی، رجیم چینج کے بعد ’’پی ڈ ی ایم حکومت بن جانیوالی اپوزیشن‘‘ نے پارلیمان کیس پر پارلیمانی اتفاق پیدا کرنے کی حکومتی کاوش کا بائیکاٹ کردیا۔ اس طرح پاکستانی حکومتی دفاع اپوزیشن کے عدم تعاون کے باعث کامل اتفاق سے قومی تو نہ بن سکا لیکن حکومتی کوشش نتیجہ خیز ہوم ورک پر اتنی ثمر آور ہوئی کہ اعتراضات کی پریشر لسٹ میں فقط ایک نکتہ اعتراض ہی باقی رہ گیا، اور اسلام آباد کے سفارتی و حکومتی و صحافتی حلقوں میں زبان زد عام ہوگیا کہ اگلے اجلاس میں پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل جائیگا۔ یاد رہے کہ پاکستان کی ان حکومتی کاوشوں کو ناکام بنانے کیلئے بھارت نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا لیکن عمران حکومت میں لسٹ کے نکتہ ہائے اعتراضات میں تیزی سے کمی آتی گئی اور یہ محال ہدف رجیم چینج کے بعد جو حاصل ہوا اس کی بڑی وجہ عالمی سیاست کے مطلع پر ظہور پذیر پیراڈائم شفٹ کے باعث پاکستان کیخلاف سخت گیر رویہ اختیار کئے زیر بحث عالمی مالیاتی فورم میں اسلام آباد بڑی ذہانت اور کاوشوں سے لابی بنانے میں کامیاب ہوا جس میں ہم حسب روایت ترک صدر طیب اردوان کے بہت ممنون ہیں۔ یوں یہ پیرا ڈائم شفٹ کو بڑھتے اور کامیاب سفارت کاری سے یہ عمران حکومت کی بڑی کامیاب تھی۔

آج جو پی ڈی ایم کی ہی متنازعہ چربہ حکومت اور اس کے معاون ن لیگی میڈیا بریگیڈ نے آئی ایم ایف کے ساتھ عوام پر ایک اور قیامت بن کر ٹوٹنے والے اگلےپروگرام پر مذاکرات سے قبل پی ٹی آئی کے اسیر بانی قائد عمران خان کا جو ردعمل اڈیالہ جیل سے جیسے تیسے باہر آیا ہے، اس پر اس بریگیڈ کی طرف سے بڑے سخت الزام کے ساتھ بہت غیر ذمہ دارانہ ابلاغی مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہاں خان اور سابقہ پی ڈی ایم اور اسی کا تسلسل موجود شہباز حکومت کا فرق امکانی بڑی عوامی تکالیف اور مفادات کے حوالے سے عالمی فورمز پر مشکل معاملات سے نپٹنے کے پوٹینشل کا فرق کھل کر واضح ہوتا ہے۔ یاد رہے رجیم چینج بذریعہ ہارس ٹریڈنگ پر اقتدار سنبھالتے ہی وزیر اعظم اور ان کے خصوصی معاون وزرا نے اقتصادی حالت زار پر کوئی عزم و ارادہ باندھنے کی بجائے اذیت ناک بے چارگی و بے بسی کا مظاہرہ کیا اور عوام کو مزید مہنگائی سے بچانے کی کوئی اختراعی کوششوں و حل اور آئی ایم ایف سے نپٹنے کی حکمت میں کوئی توازن کرنے کی بجائے ہاتھ لگے اقتدار کا آغاز بے رحم مالیاتی ادارے کے سامنے اس کے کسی پریشر ڈالنے سے قبل ہی ڈھیر ہو جانےاور عوام کو مشکل فیصلوں سے ڈرانے سے کیا۔ سینئر ترین وزیر خواجہ آصف نے قوم کو حوصلہ دلاسا تو کیا دینا تھا اعلان کیا ہم (پاکستان) تو وینٹی لیٹر پرہے، امریکہ نے ہٹا دیا تو کیا کریں گے؟۔ یہ بیانیہ قوم کی پہلے ہی بنتی مایوس کن صورتحال میں سرمایہ کاری و کاروباری سرگرمیوں اور عوام کی رہی سہی امید کے لئے تباہ کن ثابت ہوا۔ پارٹی میں سے مفتاح اسماعیل کو ان کے اسٹیٹ فنانشل مینجمنٹ کے متعلقہ تعلیمی پس منظر کے حوالے سے وزیر خزانہ بنانے کا انتخاب خاصا درست تھا، انہوں نے کام کا آغاز کچھ بہتر ہی کیا تھا لیکن پھر دھواں اٹھا، جیسے ہی رجیم چینج کے غیر معمولی و غیر قانونی مراعات کے انعامی پیکیج سے بچھڑے لندن سے ماہر خزانہ کی آمد کا امکان ہوا تو فوری یاد ستائی اور جو کوئی اوررنگ کی امید و حوصلہ حکومت سنبھالنے پر قوم کو دینا چاہیے تھا اس مسنگ کو مفتاح اسماعیل کی ناکامی کی پروپیگنڈہ مہم کے ساتھ سنجیدہ مقدمات میں جکڑے ڈار صاحب کی آمد کے امکانا ت کو نیم جان قومی معیشت کے مسیحائے وارد ہونے کی خوشخبری سے پورا کرنے کی کوشش کی، اوپر سے خود ڈار صاحب نے جو اپنی ڈاکٹری کی دھاک بٹھائی اس میں کچھ نیا لانے دکھانے کی بجائے، آئی ایم ایف کا مزاج درست کرکے بحران پر قابو پانے کے دعوے کئے گئے اور مزاج اپنا بھی درست نہ ہوا۔ عوام کو مہنگائی میں پیس دیا گیا۔ نہ بھولا جائے، پاکستان میں آئین کی پتلی گلی (ہارس ٹریڈنگ سے چند ارکان کو ادھر سے ادھر کرکے حکومت تبدیل کرنے کی آئینی گنجائش) سے نکل کر مڈ نائٹ کورٹ لگا کر جو رجیم چینج کیاگیا تھا، پاکستانی عوام نے ایٹ لارج اور دنیا نے بھی اسے پیرا ڈائم شفٹ کےتناظر میں ہی دیکھا اور سمجھا۔ حیران کن اور غضب یہ ہوا کہ حکومتی و سیاسی کھلواڑ کا عشروں کا تجربہ رکھنے والے رجیم چینج کے کھلاڑیوں نے بجائے داخلی کھلواڑ کے پیرا ڈائم شفٹ کے تناظر میں، پیرا ڈائم کھلاڑیوں کی پاکستان پر مسلسل نظر اور امکانی کردار کے اندازوں کے حوالے کوئی بھی محتاط دماغ سوزی نہیں کی کہ پاکستان کیسے اپنے اتنے بڑے سیاسی و معاشی بحران میں بھی اپنے اور کتنوں کے لئے پیرا ڈائم شفٹ میں اپنی بڑھتی اہمیت اور ناگزیر کردار کو کیسے استعمال کرے، اپنی قومی معیشت کو سنبھالا دے سکتا ہے، اس کے لئے آئی ایم ایف کے آگے اتنی ایڑیاں رگڑنے اور بچھ جانےکی بجائے اسے مسلسل انگیج رکھنے اور اسے اپنی خود شناسی (اگر کی جاتی) سے بیلنس کرنا ضروری نہیں تھا؟ سوویت یونین کی افغانستان میں عسکری و سیاسی موجودگی ختم کرکے اسے انہدام تک پہنچانے اور 9/11سے نکلی وار آن ٹیرر میں خود امریکہ کو حیران کردینے والے بڑھ چڑھ کر ہمارے ’’بے مثال انوکھے تعاون و اشتراک‘‘ کے پس منظر اور افغانستان میں غیرعلانیہ اتحادی کے طور پر جو کردار ادا کیا، اور جتنا جانی اور مالی خسارہ اٹھایا اب بھی واشنگٹن اور اسلام آباد آئندہ بھی ایک دوسرے سے مکمل دور ہونے کی پوزیشن میں تو نہیں۔ آخر ایک مارشل لائی حکومت نےبھی صورتحال کا ادراک کرکے افغانستان میں گھمبیر سوویت موجودگی پر امریکی مالی تعاون کے اعلان کو ’’مونگ پھلی‘‘ قرار دے کر قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا اور تعاون ملینز سے بلینز میں تبدیل ہوگیا تھا۔

عمران دور میں وہ جو مشیر خزانہ شوکت ترین اور خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ تیمور صاحب کے درمیان آئی ایم ایف کو سیلاب کی تباہ کاریوں کی بہت عقلی جواز سے رعایات لینے کی بات ہو رہی تھی اس میں کوئی اتنی غلط بات نہیں کہ ماحولیات کے انٹرنیشنل ایجنڈے اور گلوبل وارمنگ میں مغرب اور امریکی صنعت کے بڑے حصے کو بھی پاکستان کی سیلابی تباہی کے زیر بحث موضوع میں لایاگیا اور اب جو پاکستان میں آئی ایم ایف کے دبائو سے ہونے والے مہنگائی کے ایک اور طوفان کا مژدہ عوام کو سنایا جارہا ہے اس پر اگر آئی ایم ایف کو عوامی مفادات کے حوالے سے الرٹ کرنے کا خط لکھا ہے یا نہیں، بات کی جائے تو حقیقی جمہوریت اور سیاسی استحکام کے گہرے تعلق سے کیوں بات نہیں ہوسکتی۔ یقیناً یہ ایک عوامی بھرپورنمائندگی کا حامل لیڈر ہی کرسکتا ہے، نہ کہ ثابت شدہ ہاری حکومت۔ (جاری ہے)

تازہ ترین