• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان نہ صرف پاکستان کا پڑوسی بلکہ برادر اسلامی ملک ہے جس کے ساتھ ہمارے صدیوں پرانے اخوت کے رشتے قائم ہیں۔ بیرونی جارحیت سمیت ہر مشکل میں پاکستان نے اس کا ساتھ دیا۔ جانوں کی قربانی بھی دی اور اپنے وسائل پر لاکھوں افغان مہاجرین کا بوجھ بھی برداشت کیا مگر دل سوز حقیقت یہ ہے کہ اس نے ہماری محبت کے جواب میں ہمیشہ ہماری دل آزاری ہی کی اور ہمارے مسائل میں اضافہ ہی کرتا رہا۔ اس کی سرزمین سے دہشت گرد پچھلے کئی عشروں سے پاکستان کے علاقوں میں مسلسل حملے کررہے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان نامی کالعدم تنظیم ان کی سرخیل ہے۔ افغان طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد توقع تھی کہ اب یہ سلسلہ رک جائے گا اور دونوں ملکوں کے درمیان اخوت کےر شتوں میں حائل وہ رکاوٹیں دور ہوجائینگی جو ماضی میں کابل کے بھارت نواز حکمرانوں نے کھڑی کر رکھی تھیں مگر افسوس کہ یہ خواہش پوری نہ ہوسکی اور افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لئے بدستور استعمال ہوتی رہی۔ ٹی ٹی پی اور اس کے حواری گروہوں کی دہشت گردی نے پاکستان کی سیکورٹی فورسز اور بے گناہ شہریوں پر حملے بڑھا دیئے جن کے نتیجے میں سیکڑوں شہری اور قانون نافذ کرنے والے اہلکار شہید ہوگئے۔ ان میں آرمی پبلک اسکول پشاور کے معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ گزشتہ روز شمالی وزیرستان میں ایک سیکورٹی چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے میں دو افسروں سمیت سات فوجی جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ اس ناقابل برداشت صورتحال میں پیر کو انٹیلی جنس کی بنیاد پر پاکستان کو افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرنا پڑا۔ دفتر خارجہ کے مطابق کارروائی کا ہدف ٹی ٹی پی ہم نوا حافظ گل بہادر گروپ تھا جو پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردی اور سیکڑوں شہریوں اور اہلکاروں کی شہادتوں کا ذمہ دار ہے۔ وزارت خارجہ کی ترجمان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں برسر اقتدار حکومت کے کچھ عناصر بھی ٹی ٹی پی اور دہشت گرد گروپوں کی سرگرم سرپرستی کررہے ہیں اور انہیں پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ پاکستان نے کابل حکومت کو ایک بار پھر خبردار کیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کا ساتھ دینے کی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم اور اس کی قیادت کو پاکستان کے حوالے کرے۔ انٹرسروسز پبلک ریلیشنز نے ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ پاکستان افغانستان کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کو انتہائی اہمیت دیتا ہے اس لئے اس نے ہمیشہ بات چیت اور تعاون کو ترجیح دی۔ کابل حکومت کو چاہئے کہ وہ ٹھوس اور مؤثر کارروائی کے ذریعے افغان سرزمین کو پاکستان کیخلاف استعمال نہ ہونے دے۔ افغانستان کے اندر پاکستان کی کارروائی کے بارے میں افغان ترجمان نے کہا ہے کہ یہ کارروائی خوست اور پکتیکا کے علاقوں میں کی گئی جس کے دوران 8دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔ ادھر شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کی واردات کے بعد پاک فوج نے ایک آپریشن میں مزید 8دہشت گرد ہلاک کردیئے جن میں ان کا انتہائی مطلوبہ سرغنہ کمانڈر صحرا عرف جانان بھی شامل ہے۔ امریکہ نے افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کو جوابی کارروائی قرار دیا ہے اور طالبان حکومت سے کہا ہے کہ وہ پاکستان پر حملے روکنے کو یقینی بنائے اور اسلام آباد سے ملکر اختلافات کا حل تلاش کرے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی کارروائی سے سبق سیکھنے اور مثبت جواب دینے کے بجائے افغان فورسز نے پاکستان کے سرحدی ضلع کرم میں گولہ باری کرکے دہشت گردوں سے ہمدردی کی حقیقت عیاں کردی۔ یہ بات یقینی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حل تلاش کرنے اور دہشت گردوں کو پاک افغان تعلقات سبوتاژ کرنے کے عمل سے روکنے کا عمل جاری رکھے گا۔ کابل حکومت کو بھی اس معاملے میں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔

تازہ ترین