• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جو لوگ گداگروں پر الزام لگاتے ہیں، یہ ہڈحرام ہیں اور محنت سے جی چراتے ہیں وہ اس طبقے کے ساتھ سخت ناانصافی کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس قدر محنتی یہ لوگ ہیں شاید ہی کوئی اور طبقہ ہو میں نے دیکھا ہے کہ یہ لوگ چلچلاتی دھوپ میں گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں اور ان کا ایک ہاتھ مسلسل پھیلا رہتا ہے ۔آپ مجھے اتنی دیر دھوپ میں کھڑے ہو کر اور ایک ہاتھ کو پانچ چھ گھنٹے اکڑا کر دکھائیں میں آپ کا قائل ہو جائوں گا، صرف یہی نہیں بلکہ ان میں سے جو زیادہ ایڈونچرس ہیں وہ آپ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کیلئے نت نئے تجربے اور ریاضتیں کرتے ہیں ۔مثلاً مال روڈ پر ایک فقیر اکثر نظر آتا ہے یہ نوجوان آدمی ہے اور ہٹا کٹا ہے اگر وہ اپنی اصلی حالت میں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے گا تو اسے بھیک کی بجائے ڈانٹ سننے کو ملے گی خود اس کا اپنا ضمیر بھی بغیر کسی معذوری کے بھیک مانگنے پر راضی نہیں ہوتا چنانچہ یہ چھ فٹ کا جوان مسلسل ریاضت سے خود پر کبڑا پن طاری کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔اپنی کمر کو دوہرا کرکے چلتا اور بالکل ’’کچھو کماں ‘‘(کچھوا ) لگتا ہے۔یہ کئی گھنٹے اسی حالت میں رہتا ٹریفک سگنل سرخ ہونے پر ایک دن اس نے میری کار کا شیشہ کھڑکا کر مجھے اپنی طرف متوجہ کیا ،میں نے شیشہ نیچے کیا اور جیب سے ایک سو روپے کا نوٹ نکالا جسے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی میں نے اسے یہ نوٹ دکھایا اور کہا اگر تم سیدھے کھڑے ہو جائو تو یہ نوٹ تمہارا ہے اس پر اس نے کنکھیوں سے اپنے دائیں اوربائیں دیکھا دور تک کاریں ہی کاریں کھڑی تھیں اور یوں اپنے بیسیوں(کلائنٹس) کے سامنے اچانک سیدھا کھڑا ہونے سے 100کا یہ نوٹ اسے خاصا مہنگا پڑ سکتا تھا چنانچہ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں مجھ سے معذرت کی اور مسکراتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

ایک اور نوجوان گداگرسے اکثر ملاقات ہوتی یہ سارا دن بیساکھیوں پر کھڑا رہتا اور چونکہ اس کی دونوں ٹانگیں بدقسمتی سے سلامت ہیں اس لئے وہ ایک ایک ٹانگ کو قدرے اٹھا کر رکھنے اور اس طرف کے پائوں کو شلوار کے پائنچے میں چھپانے پر مجبور تھا اور ظاہر ہے یہ بھی کوئی آسان کام نہیں یہ دفتر میں آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر آٹھ گھنٹے ڈیوٹی دینے سے زیادہ مشکل اور محنت طلب کام ہے اس طرح کا ایک نابینا فقیر اپنی بچی کے کاندھے پر ہاتھ رکھے بھیک مانگتا ہے اس نے آنکھوں پر کالی سیاہ عینک چڑھائی ہوتی ہے جس سے اس کی آنکھیں ہی نظر نہیں آتیں اور ظاہر ہے اس عینک کے ساتھ اسے بھی کچھ نظر نہیں آتا ہو گا وہ سارا دن اندھیرے میں گزارتا ہے اس سے زیادہ حق حلال کی کمائی اور کیا ہوگی۔لاہور کی سڑکوں پر ایک اور گداگرسے اکثر سلام دعا رہتی ہے یہ گداگر اداکاری کی طرف مائل ہے چنانچہ یہ سڑکوں پر اللہ لوک کے روپ میں نظر آتا ہے ۔اس کے منہ سے رالیںبہہ رہی ہوتی ہیں چہرے پر جھلوں والی مسکراہٹ ہوتی ہے پیسے بغیر کسی ہچکچاہٹ اور لجاجت کے مانگتا ہے اور وصولی پر یہ پچیس سالہ نوجوان بچوں کی طرح خوشی سے اچھلنے لگتا ہے کسی بات کا جواب دینے کی بجائے آگے سے کھی کھی کرکے ہنستا ہے ۔ہروقت منہ میں رال بھر کے پھرنا کوئی آسان کام نہیں یہ ماہر فن آدمی ہے بس پکڑا صرف اس وقت جاتا ہے جب کچھ دیر کے لئے چہرے کی تھکاوٹ دور کرنے کی خاطر یہ ایک دم نارمل نظر آنے لگتا ہے ۔

اور جو عورتیں چلچلاتی دھوپ میں اور شائد حبس کے موسم میں شٹل کاک برقعہ میں ملبوس گھنٹوں سڑک پر کھڑی رہتی ہیں اور ہر آنے جانے والے کےسامنے دست سوال دراز کرتی ہیں یقیناً بہت محنتی عورتیں ہیں ان کا کام ان عورتوں سے کہیں زیادہ مشقت طلب ہے جو گھروں میں کام کرتی ہیں لہٰذا میں جب کبھی اس طبقے کے افراد کی ہتھیلی پر کچھ رقم رکھتا ہوں یہ بھیک نہیں ہوتی بلکہ یہ ان کی محنت کی تحسین اور ان کے فن کا اعتراف ہوتا ہے ۔یہ لوگ صرف محنتی نہیں ماہرنفسیات بھی ہوتے ہیں ان کا انسانی نفسیات کا علم نفسیات کے کئی پروفیسروں سے زیادہ ہوتا ہے۔میںفقیروں کا قدردان ہوں اور میرے ایک دوست وزیروں کے مداح ہیں میں کہتا ہوں ان میں سے بہت سے قومی خزانے اور قومی ضمیر پر بوجھ ہیں لہٰذا کابینہ بہت مختصر سی ہونا چاہئے اس کے جواب میں میرا دوست اپنے موقف کے حق میں دلائل کا ڈھیر لگا دیتا ہے اس کا کہنا ہے کہ ایک طرف تم ملک میں سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیتے ہو اور دوسری طرف ان لوگوں کی مخالفت کرتے ہو جو ہر تین سال بعد انتخابات کے موقع پر زبردست سرمایہ کاری کرتے ہیں ان میں سے ہر شخص قریباً ایک کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کرتا ہے صرف یہی نہیں بلکہ ممبر منتخب ہونے کے بعد اپوزیشن کے خلاف بیانات اور الزامات کی سرمایہ کاری کا عمل شروع ہو جاتا ہے وزیر بننے کیلئےیہ عمل اگرناکافی سمجھا جائے تو پھر ادھر ادھر باقاعدہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے ۔وزیر بننے کے بعد بھی یہ عمل رک نہیں جاتا بلکہ اس کے بعد لینے دینے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جس سے آزادانہ تجارت کو فروغ ملتا ہے کئی دفعہ تو اس عمل کے صدقے میں قومی مفاہمت کی راہ بھی ہموار ہو جاتی ہے مثلاً حکومت کو اپوزیشن کے کسی رکن کے بارے میں غلط فہمی ہوتی ہے کہ وہ کروڑوں اربوں روپوں کی لوٹ مار میں ملوث ہے لیکن جب اس سے بات کی جاتی ہے تو غلط فہمی دور ہونے اور اسے وزیر بنانے میں دیر نہیں لگتی اوریوں اس سے قومی مفاہمت کی راہ ہموار ہونے لگتی ہے ایسے مواقع پر بعض حکومتی ارکان بہت پریشان بھی ہوتے ہیں لیکن چند دنوں بعد ان کی پریشانی بھی ختم ہو جاتی ہے باقی صرف پشیمانی رہ جاتی ہے ۔

یہ اور اسی طرح کے بے شمار دلائل ہیں جو میرا دوست وزیروں کے حق میں دیتا رہتا ہے ایسے مواقع پر میں اس سے بحث نہیں کرتا بلکہ جواباً فقیروں کے حق میں دلائل دینا شروع کر دیتا ہوں اس پر میرا دوست سمجھ جاتا ہے کہ میں اس ضمن میں قومی مفاہمت کا خواہشمند ہوں چنانچہ یہ مفاہمت ہو جاتی ہے اور ہم دونوں آخر میں یہ مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہیں کہ وزیر اور فقیر دونوں قابل احترام ہیں لہٰذا ان کی کردار کشی نہیں ہونی چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین