• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک بات طے ہے۔ قدرت سے کوئی نہیں جیت سکتا۔انسان اورقدرت کی جنگ ازل سے جاری ہے۔ جب تک انسان آپے سے باہر نہیں ہوا، قدرت نے بھی اپنا ہاتھ ہلکا رکھا۔ لیکن جب انسان نے قدرت کو حقارت سے دیکھنا شروع کیا، اس کی چالیں بھی بدل گئیں۔ اب صورت یہ ہے کہ ہماری زمین نے اپنے گرد ماحول کی جو چادر لپیٹ رکھی ہے انسان اس کو تار تار کرنے پر تلا ہوا ہے۔ نتیجہ ہمارےسامنے ہے۔ دنیا کے موسم پر ایک جھنجھلاہٹ سی طاری ہے۔ کیا مشرق اور کیا مغرب، آسمان سے آفتوں پر آفتیں اتر رہی ہیں۔ کہیں غضب کی سردی اور برف باری، کہیں قیامت کی گرمی اور خشک سالی۔ کہیں دریا ابلے پڑ رہے ہیں اور کہیں سمندر اپنی حدیں پھلانگ رہا ہے۔ پورے پورے علاقے برف میں دبے ہوئے ہیں یا پانی میں ڈوبے جا رہے ہیں۔ موسموں کے معمولات بدل رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب بارشیں برسنے کی تاریخیں طے تھیں۔موسم بدلنے کے دن اور اوقات تک معلوم تھے۔ پہلا پہلا پھول کب کھلے گا ، سب جانتے تھے۔ فصلیں کب اگیں گی ، کب پکیں گی اور کب کاٹی جائیں گی، قدرت کا کیلینڈر اٹل تھا۔ مگر اب تو سب کچھ تلپٹ ہوا جاتا ہے۔ موسم کے مزاج ہی نہیں ملتے، نئی کلیاں کھلنے کو ہیں لیکن یوں لگتا ہے جیسے کوئی بے رحم ہاتھ انہیں کھلنے سے روک رہا ہے۔ ادھر ہم ہیں کہ پورے کرّۂ ارض کے جنگل بے رحمی سے کاٹے چلے جارہے ہیں،کوئلہ بے دریغ پھونک رہے ہیں، کاروں میں پٹرول اس طرح جل رہا ہے کہ گاڑیوں کے دھوانرے سے سیاہ بادل امڈے پڑ رہے ہیں۔ فیکٹریوں کی غلاظت دریاؤں کو یوں آلودہ کر رہی ہے کہ بدبو کی وجہ سے دونوںکناروںکی آبادیوں کا دم گھُٹ رہا ہے۔ سمندری مخلوق بے بسی کے عالم میں مر رہی ہے اور پانی کی سطح اس کی لاشوں سے پٹ گئی ہے۔ غضب یہ کہ سب جانتے ہیں کہ ان بداعمالیوں کے نتیجے میں کیسی تباہی آئے گی لیکن جو کچھ کررہے ہیں، کئے جارہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ ہمارے دن تو خیر سے گزر جائیں گے، اب جو کچھ بیتے گی، اس سے آنے والی نسل نمٹے گی۔
کیسا غضب ہے کہ قطبِ شمالی اور قطب جنوبی میں صدیوں سےجمی ہوئی برف پگھل رہی ہے۔ برف کے تودے ٹوٹ ٹوٹ کر سمندر میں گررہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں سمندر کی سطح اونچی ہورہی ہے۔ یہ معلوم ہو چکا ہے کہ دنیا کے کون کون سے ساحلی علاقوں پر سمندر چڑھ دوڑے گا۔ مالدیپ کے کتنے ہی جزیرے ڈوب جائیں گے۔ پاکستان میں ٹھٹھہ کے ساحل پر سمندر چڑھا چلا آرہا ہے۔ وہیں کہیں شاہ بندر نام کی تاریخی بندرگاہ نقشے سے مٹ چکی ہے اور خدا جانے اَورکتنی بستیوں کو یہ کھاری پانی نگل جائے گا۔ یہ معاملہ کسی خاص علاقے اور خطے کا نہیں۔ یہ مسئلہ ساری دنیا کا ہے جو یومِ ارض یعنی زمین کا دن مناتی ہے اور پھر فضا کو آلودہ کرنے میں لگ جاتی ہے۔
ہمارے ایک دوست کی رائے ہم سے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آسمان ہماری دنیا کا آئینہ ہے۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں ، آئینے میں وہی دیکھتے ہیں۔ اچھے زمانے تھے تو آسمان کارویّہ بھی بھلا تھا۔ سیلاب کبھی کبھار آتے تھے، سوکھا پڑتا تو تھا مگر کم کم ۔ زلزلوں کا آنا جانا اس تواتر سے نہیں تھا جیسے اب ہے۔ اور تو اور ایک دو بڑی جنگیں ہوتی تھیں اور انسان اپنی بھڑاس نکال لیتا تھا۔ اب تو یہ حال ہے کہ گلی گلی اور محلے محلے جنگیں ہو رہی ہیں،خوراک کی گرانی جیسے جیسے بڑھ رہی ہے، خون کی ارزانی اس سے بھی آگے نکلی جا رہی ہے۔ انسان ایک دوسرے کے گلے کاٹے اور یہ امید رکھے کہ آسمان کا آئینہ کسی دن اس کو اس کا اصل روپ نہیں دکھائے گا، یہ تو ہونے سے رہا۔ عذاب کو تو ایک نہ ایک روز ٹوٹنا ہے، وہ ٹوٹے گا۔میں اپنے دوست کی اس دلیل کے جواب میں یہ کہتا ہوں کہ آسمان شوق سے بجلیاں گرائے مگر اُن پر گرائے جو بداعمالی کے مرتکب ہیں، ان کے عذاب کی زد میں بے قصورکیوں آتے ہیں،کشمیر کے اسکولوں کی جماعتوں میں بیٹھے ہوئے معصوم بچّے اچانک زلزلے کی زد میں آکر گرنے والی چھتوں کے تلے کیوں کچل جاتے ہیں۔ یہ ایسے سوال ہیں جن کے جواب کسی کے پاس نہیں۔ سارا الزام قدرت پر دھر کر ہم مطمئن ہو کر بیٹھ رہیں اور دل ہی دل میں آس بندھائے جائیں کہ خود ہمیں کچھ نہیں ہو گا۔ پوری پوری قوموں نے سیلابوں پر قابو پالیا ہے، زلزلے سے محفوظ عمارتیں اُٹھا لی ہیں، زندگی کی ضرورتوں کے ذخیرے کر لئے ہیں۔ جس سے جو بن پڑ رہا ہے وہ کر رہا ہے۔ مگر وہ ہم نہیں، ہم اس شمار میں ہیں نہ قطار میں ۔
ہم پھر آتے ہیں اپنے پہلے استدلال کی طرف۔ انسان قدرت سے نہیں جیت سکتا۔ اس کی ایک اور بڑی مثال ہمارے دوا، علاج ہیں۔ بیماریاں اور مرض ہمارے اطراف منڈلاتے رہتے ہیں۔ایک زمانے میں انفلوئنزا سے لاکھوں لوگ مرجایا کرتے تھے۔ ملیریا اب بھی بستیوں کی بستیاں ہڑپ کر رہا ہے۔ تپِ دق پرقابو پالیا گیا تھا، اس کی واپسی شروع ہوگئی ہے۔ یہ بات زیادہ پرانی نہیں کہ کینسر یا سرطان نے زور پکڑا اور علاج دستیاب نہ تھا، لوگ بے حساب مرنے لگے۔ اس کے بعد ایڈز کی وبا دندناتی ہوئی آئی اور ایک دنیا خوف سے دہل کر رہ گئی۔ معالجے کا علم ان سب سے لڑتا رہا۔ ان پر کسی حد تک قابو بھی پالیا گیا۔ اب تازہ خبر یہ ہے دماغ کے چھلنی ہوجانے کا مرض سر اٹھا رہاہے۔ وہ بیماری جو ڈی۔من۔شیاکہلاتی ہے اور جس میں انسان کا دماغ کام بند کرنے لگتا ہے ہماری دہلیز تک آپہنچی ہے اور علاج کے آثار دور دور تک نہیں۔معالجے کے علم نے انسان کی عمر تو بڑھا دی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ بڑھاپا ہی Demantiaکا بڑا سبب بتا یا جاتا ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ انسان کی عمر بڑھانے میں خوش حالی کا ہاتھ بھی ہے۔ خبر ہے کہ چین اور بھارت میں عام لوگوں کی حالت بہتر ہونے سے نہ صرف ان کی عمریں بڑھ رہی ہیں بلکہ وہاں ڈی منشیا کا مرض بھی زور پکڑ رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں ہر سال ستّر لاکھ ستّر ہزارنئے مریض سامنے آتے ہیں۔ مغربی ملکوں میں ان کی دیکھ بھال پر پہلے سے زیادہ توجہ دی جاری ہے۔ کوشش یہ ہو رہی ہے کہ یہ مریض اپنی زندگی کے آخری دو تین برس آرام سے گزاریں۔ ان کے لئے خصوصی مرکز قائم ہو رہے ہیں جہاں انہیں گھر جیسا ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ اکثر اوقات کوشش ہوتی ہے کہ انہیں ان کے اپنے گھروں میں رکھا جائے۔اب مسئلہ یہ ہے کہ اس کے لئے بھاری رقم درکار ہے۔ اسی طرح علاج ڈھونڈ نے کے لئے بھی بہت بڑی رقم چاہئے۔ اوپر سے غضب یہ کہ دنیا کی اقتصادی حالت اچھی نہیں۔ کہیں بچت ہورہی ہے کہیںکٹوتیاں۔ ایسے میں ہاتھ کہاں کھینچا جائے اور کہاں کھولا جائے۔ لوگ سر جوڑ کر بیٹھے تو ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ کاسہء سر کے اندر لگنے والے گھُن کو انسان شکست دے پاتا ہے یا نہیں۔
آسمان کو زمین کا آئینہ قرار دینے والے ہمارے دوست اس بارے میں جو بات کہتے ہیں وہ دل کو لگتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آج دنیا کے حالات نے انسان کے دماغ کا جو حال کیا ہے اور بے چارے ذہن پر ہر روز جو طرح طرح کے عذاب نازل ہوتے ہیں ان کے نتیجے میں دماغ ماؤف نہیں ہوگا تو کیا ہوگا۔ صبح سے شام تک جس طرح کی خبروں کی یلغار ہوتی ہے ، اس سے انسانی دماغ کا چھلنی ہونا کچھ عجب نہیں۔ آپ دماغ کی بات کرتے ہیں، آج کے حالات تو سینے کو بھی چھلنی کئے ڈالتے ہیں۔ دماغ کے ماؤف ہونے کا علاج تو شاید نکل آئے، سینہ اگر ایک بار چھلنی ہوا تو آپ کتنی ہی بخیہ گری کریں، یہ ٹھیک نہ ہونے کا۔
تازہ ترین