• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ایک اشتہار بچپن سے آج تک دیکھتا چلا آرہا ہوں ’’کمزور حضرات متوجہ ہوں‘‘ مجھے بچپن میں صحیح طور سے اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ اس اشتہار کا مطلب کیا ہے چنانچہ میں اپنے دبلے پتلے اور کمزور سے نظر آنے والے دوستوں کو اس اشتہار کا مخاطب سمجھا کرتا تھا ۔میں ان دنوں وزیر آباد میں گورو کوھٹھے کے پاس واقع مجید پہلوان کے اکھاڑے میں ڈنڈ پیلنے اور اپنے دوستوں کے ساتھ کشتیاں کرنے بھی جایا کرتا تھا میں جب کبھی چت ہو جاتا تو مجھے لگتا اس اشتہار کا مخاطب میں بھی ہوں چنانچہ ایک دو دفعہ میں نے اشتہار میں درج ایڈریس پر جانے کا ارادہ بھی کیا اور میں نے مجید پہلوان کو اپنے ارادے سے مطلع کیا تو وہ بری طرح ہنسنے لگا تھوڑی دیر بعد وہ سنجیدہ ہو گیا اور اس نے میرے کاندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا برخوردار تمہیں وہاں جانے کی ضرورت نہیں اور نہ کبھی ضرورت پڑے گی بس روزانہ ڈنڈ بیٹھکیں نکالو اور سردائی پیتے رہو‘‘

پھر جب میں تھوڑا سا اور بڑا ہوا تو میں نے سوچا کسی دانا شخص سے اس اشتہار کا مطلب پوچھنا چاہئے ۔چنانچہ میں ماسٹر رحمت کے پاس گیا تھوڑی دیر پہلے ان کے شاگرد خاص ساجد سونڈی نے ان کے لئے حقہ تازہ کیا تھا اب وہ تہبند باندھے چارپائی پہ بیٹھے حقے کے کش لگا رہے تھے میں نے ان سے پوچھا ’’ماسٹر جی کمزور حضرات کون ہوتے ہیں بولے کمزور وہ ہوتے ہیں جو خود کو کمزور سمجھتے ہیں مجھے ان کی یہ بات کچھ خاص سمجھ نہ آئی لیکن اس سلسلے میں کوئی مزید سوال مناسب نہیں تھا کیونکہ اس کے بعد جواب ماسٹر رحمت کی بجائے ان کا ’’مولا بخش‘‘ دیا کرتا تھا ۔لاہور آکر کالج میں داخلہ لیا تو یہ اشتہار شہر کی ہر دیوار پر نظر آنے لگا اور یوں میرے تجسس میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا ایک دن میں نے اپنے کالج کے ایک پروفیسر صاحب سے ڈرتے ڈرتے پوچھ ہی لیا کہ سر یہ کمزور حضرات کون ہوتے ہیں ’’بولے‘‘ جو ذاتی وجوہات کی بنا پر امن کا نعرہ لگائیں ‘‘ مجھے پروفیسر صاحب کا جواب پسند نہ آیا کیونکہ اس کی زد میں ،میں خود آتا تھا۔صرف ایک روز پہلے میرے ایک کلاس فیلو نے مجھے پوری کلاس کے سامنے گالیاں دی تھیں اور میرے گریبان پر بھی ہاتھ ڈالا تھا مگر میں بظاہر خود کو امن پسند ثابت کرنے کیلئے خاموش رہا ۔دوستوں نے میری اس خاموشی کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا ’’میں نے یونین کے الیکشن میں بطور صدارتی امیدوار کھڑے ہونا ہے مجھے اس بدتمیز شخص کی الیکشن میں ضرورت پڑے گی۔‘‘

یونیورسٹی کے زمانے میں بھی یہ اشتہار شہر کے درودیوار اور اخباروں میں بہت نمایاں طور پر نظر آیا، اس عرصے میں میرے تجسس میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا میں نے سوچا اس دفعہ اس حوالے سے کسی اور طبقے کے نمایاں فرد سے رائے لینا چاہئے چنانچہ میں ایک اخبار کے چیف رپورٹر کے پاس گیا اور پوچھا ’’جناب کمزور حضرات کون ہوتے ہیں ’’بولے ’’جو حکومت یا طاقتور طبقوں کا دبائو برداشت نہ کرسکیں‘‘ مگر میں مطمئن نہ ہوا پھر میں نے مسلسل مختلف طبقوں کے سرکردہ افراد سے رائے لینا شروع کر دی ۔ایک دانشور نے کہا ’’کمزور حضرات وہ ہوتے ہیں جن کی اپنی کوئی رائے نہیں ہوتی چنانچہ ان اندھی توپوں کا رخ بوقت ضرورت کسی بھی طرف موڑا جا سکتا ہے‘‘ ایک سیاسی کارکن کا کہنا تھا ’’کمزور حضرات کی نشانی یہ ہے کہ وہ صرف طاقتور کے ساتھ ہوتے ہیں جب ایک طاقت کے سوتے خشک ہوتے ہیں تو وہ فوراً اس کی جگہ لینے والی دوسری طاقت کی پناہ میں چلے جاتے ہیں ‘‘ ایک جہادی جماعت کے رہنما نے کہا ’’وہ جہاد سے بچنے کے لئے جہاد اکبر کا نعرہ لگانے لگتے ہیں‘‘ایک حکیم صاحب نے کہا ’’بہت زیادہ کھانے سے ان کا معدہ خراب ہو جاتا ہے اور پھر وہ کمزور ہوجاتے ہیں ‘‘ اپنے سوال کا جواب تلاش کرتے کرتے میں تو بوڑھا ہو گیا ہوں اور مجھے ابھی تک اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا، ایک صاحب نے اس کا جواب دیا لیکن میں اس سے بھی مطمئن نہیں ہوں چنانچہ آخر میں ،میں چاہوں گا کہ کمزور حضرات میں سے کوئی صاحب خود بتائیں کہ اس سے کیا مراد ہے وہ بتانے سے جھجکیںنہیں ان کی گفتگو صیغہ راز رکھی جائے گی!

آخر میں اپنے شعری کلیات ملاقاتوں کے بعد میں سےایک غزل:

بلا کے صبح کو خوش رنگیاں سنائی گئیں

ہوئی جو شام تو ویرانیاں دکھائی گئیں

میں جانتا ہوں کہ اس ایک شخص کی خاطر

کہاں کہاں سے یہ آسانیاں لائی گئیں

مجھے تو یاد نہیں شکل اپنے منصف کی

مجھے تو یاد سزائیں ہیں جو سنائی گئیں

ہمارے بچوں کا پرسان حال کوئی نہ تھا

ہماری یاد میں شمعیں بہت جلائی گئیں

پڑا جو کام تو پائوں میں آکے بیٹھ گے

پھر اس کے بعد تو آنکھیں نہیں ملائی گئیں

بنا کے کشتیاں کاغذ کی شاہزادوں نے

ہمارے واسطے طغیانیوں میں لائی گئیں

ہماری دنیا کو دوزخ بنا دیا اور پھر

زمین پہ اپنے لئے جنتیں بسائی گئیں

خدا کے نام پہ ہم نے بسائی جو بستی

خدا کے نام پہ واں بستیاں جلائی گئیں

حقیقتوں کو چھپانے کی کاوشوں میں عطاء

کہانیاں ہمیں کیا کیا نہیں سنائی گئیں

تازہ ترین