• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر کہیں دو افراد بیٹھے ہوں اور ان میںسے ایک بور نظر آئے تو سمجھ لیں دوسرا بور ہے ۔ایٹمی جنگ کی صورت میں بھی کسی بور آدمی کی پناہ گاہ میں پناہ نہیں لی جاسکتی اس طرح کے بہت سے جملے بور آدمیوں کے لئے مشہور ہیں اور میرے خیال میں بور افراد کے بارے میں اس سے کہیں زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت ہے کیونکہ میرے خیال میں ہی سماج دشمن لوگ ہیں جو مایوسی اور بیزاریت کی آلودگی پھیلانے میں مشغول رہتے ہیں۔صبح کا وقت ہے پرندے چہچہارہے ہیں ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے، آپ رات کو اچھی نیند کا مزا لیکر ابھی ابھی جاگے ہیں اور یوں خود کو بہت تروتازہ محسوس کر رہے ہیں اتنے میں ایک شخص آتا ہے جو آپ کو اپنا دوست کہتا ہے آپ اسے چائے پیش کرتے ہیں وہ برا سا منہ بنا کر ایک گھونٹ لیتا ہے اور آپ کو مخاطب کرکے کہتا ہے تمہیں پتہ ہے زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ممکن ہے کہ ابھی ہمیں ہارٹ اٹیک ہو اور ہماری گردنیں ایک طرف کو لڑھک جائیں اور یہ چائے ہمارے کپڑوں پر آن گرے اس کی یہ بات سن کر چائے کا کپ ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے رہ جاتا ہے۔ آپ کی ساری تروتازگی ختم ہو کر رہ جاتی ہے اس کے بعد سارا دن برا گزرتا ہے رات کو کمرے میں مشک کافور پھیلی محسوس ہوتی ہے خواب بھی کچھ اس قسم کا آتا ہے کہ بہت سے عزیز واقارب جمع ہیں اور گفتگو ہو رہی ہے کہ جنازہ کتنے بجے اٹھایا جائے گا ؟اب آپ ہی بتائیں کہ ایسے شخص کو سماج دشمن نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟

ساون کی گھٹائیں چھائی ہوں ہلکی ہلکی بارش ہو رہی ہو تمام حواس خمسہ پوری طرح بیدار ہوں دل خوشی سے ہلارے لے رہا ہو اس دوران ایک صاحب آٹپکیں اور کہیں دنیا میں مجھ سے زیادہ بدنصیب کوئی نہیں آپ اس پر حیران ہوں اور کہیں برادرم آپ کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے آپ بدنصیب کیسے ہو گئے اور وہ اس پر کہیں خوش نصیبی اورمیں، جناب میر ی بدقسمتی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ کل میں اسٹیڈیم میں میچ دیکھ رہا تھا اسٹیڈیم میں اس وقت بیس ہزار لوگ تھے ایک چیل نے پرواز کرتے ہوئے بیٹ کی اور یہ بیٹ انیس ہزار نو سو ننانوے لوگوں کو چھوڑ کر میرے سر پر گری اور آپ کہتے ہیں میں بدنصیب نہیں ہوں!

بور لوگوں میںوہ مجھے زیادہ بور لگتے ہیں جو یہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ وہ بور نہیں ہیں چنانچہ وہ لطیفے سنانے کی کوشش کرتے ہیں وہ لطیفے جن کے کان کے بال بھی سفید ہو چکے ہوتے ہیں یہ لطیفے عموماً دس بارہ میل لمبے ہوتے ہیں چنانچہ سننے والے ہنسنے ہانپنے لگتے ہیں یہ حضرات دعویٰ کر سکتے ہیں کہ پاکستان انہوں نے بنایا تھا اور اس وقت ان کی عمر چار سال تھی۔ قدیر خان کے سامنے ان کی تمام تر کوشش محفل میں جان محفل بننے کی ہوتی ہے انہیں اپنی ذات سے عشق ہوتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی سالگرہ پر اپنے والدین کو مبارکباد کا تار بھیجتے ہیں۔ ایک بور دوست کا تکیہ کلام ہے’’ یہ بھی کوئی زندگی ہے سردی زیادہ ہو یا کم، گرمی میں شدت ہو یا نرمی، بارش کم ہو یا زیادہ یہ کوئی زندگی ہے ‘‘کا جملہ دہراتے ہیں اور اپنے سر پر دو ہتڑبھی مارتے ہیں۔ میرے اس دوست کا ٹرانسپورٹ کا کاروبار ہے یہ اپنے عملے کا انتخاب کرتے وقت بھی سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اس کی زندگی سے بیزاری کس درجے کی ہے اگر انہیں کسی شخص میں زندگی کی ذراسی رمق بھی نظر آئے تو یہ اسے فارغ کر دیتے ہیں۔

اب آخر میں زندگی سے بیزار کرنے والی میری

ایک بکواس نظم

عاشقی واشقی ہے سب بکواس

ہوتی ہو گی کبھی، پہ اب بکواس

ہجر کے اور وصال کے قصے

شاعری وائری ہے سب بکواس

عشوہ و غزہ و ادا بیکار

چشم و رخسار ہوں یا لب بکواس

اپنا دن ہے نہ رات اپنی ہے

دن ہے بکواس اور شب بکواس

زندگی کتنی خوبصورت تھی

کتنی لگنے لگی ہے اب بکواس

ایک یہ زاویہ بھی ہے صاحب

جو بھی دکھتا ہے سب کا سب بکواس

بوجہل آج کے زمانے کے

کرتے رہتے ہیں روز و شب بکواس

ایک خلقت جمع ہے سننے کو

آپ حضرت کریں گے کب بکواس

کوئی بکواس کی وجہ تو ہو

کرتے رہتے ہو بے سبب بکواس

کوئی تو عقل کی بھی بات کرے

صبح سے شام تک عجب بکواس

تیرے منہ سے تو پھول جھڑتے ہیں

میری باتیں ہیں سب کی سب بکواس

کس قدر دوستی ہے دونوں میں

رہبری رہزنی کے ڈھب بکواس

کوئی مطلب نہ ڈھونڈنا اس میں

میں نے کہہ جو دیا ہے سب بکواس

کیا کروں میں کہ دیکھ بیٹھا ہوں

زہد و لہو و لعب بکواس

بھونکنا بند نہیں کرو گے اگر

دوسرا بھی کرے گا تب بکواس

کچھ نہ کچھ تو عطا ہوا ہو گا

کوئی کرتا ہے ورنہ کب بکواس

تازہ ترین