• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے جسٹس شوکت صدیقی کی آئینی درخواستوں پر محفوظ کیا گیا فیصلہ گزشتہ روز سنادیا۔ سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے منصب سے برطرفی کے واضح طور پر غیرمنصفانہ فیصلے کو کالعدم قرار دے کر ایسا تاریخ ساز فیصلہ کیا ہے جس کے نہایت مثبت اثرات ان شاء اللہ ہمارے پورے عدالتی نظام پر مرتب ہوں گے۔ پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی اور عدل و انصاف کی بالادستی میں خود عدلیہ سمیت طاقتور ریاستی اداروں سے وابستہ شخصیات کا رکاوٹ بنے رہنا ایسی حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ حصول آزادی کے بعد ابتدائی برسوں ہی میں نظریہ ضرورت کا آسیب عدلیہ پر اس طرح مسلط ہوا کہ طاقتور حلقوں کے آئین شکن اقدامات اعلیٰ عدالتوں سے بآسانی سند جواز پاتے رہے۔ اس سلسلے کا ایک نہایت غیر معمولی واقعہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی کو قانون کی بالادستی قائم رکھنے کے عزم پر انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جانا تھا۔ ان کے بیان کے مطابق 2018ء کے انتخابات سے پہلے ایک اہم ریاستی ادارے کے طاقتور عہدیدار نے ان سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ الیکشن کے انعقاد سے پہلے ایک زیر حراست سیاسی لیڈر اور ان کی بیٹی کی ضمانت منظور نہ کی جائے جبکہ اس کا صلہ انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کی سربراہی کی شکل میں دلایا سکتا ہے۔ اس فرمائش پر فاضل جج نے واضح کیا کہ ان کا فیصلہ قانون کے تقاضوں کے منافی نہیں ہوسکتا۔ ریاستی ادارے کے عہدیدار نے اس جواب پر ناخوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا ہوا تب تو ہماری دوسال کی محنت ضائع ہوجائے گی۔ جناب شوکت صدیقی نے 21 جولائی2018ء کوپنڈی بار کونسل کے اجلاس سے خطاب میں نتائج کی پروا نہ کرتے ہوئے یہ روداد سنائی اور یہ انکشاف بھی کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے اسی طاقتور شخصیت نے مذکورہ سیاسی لیڈر اور ان کی بیٹی کی ضمانت کا کیس سننے والی بنچ میں شوکت صدیقی کو شامل نہ کرنے کی فرمائش کی ہے تاکہ مطلوبہ فیصلے کا حصول یقینی بنایا جاسکے۔فاضل جج کو اس جسارت کی سزا اس وقت کی سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے منصب سے برطرفی کی شکل میں ملی۔ اس فیصلے کے خلاف شوکت صدیقی کی اپیل مسلسل مؤخر کی جاتی رہی جو بالآخر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں زیر سماعت آئی اور گزشتہ روز اس کا محفوظ کردہ فیصلہ سنادیا گیا۔سپریم کورٹ نے جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بطور ریٹائرڈ جج ہائی کورٹ پنشن اور دیگر مالی مراعات کا اہل قراردیدیا ہے لیکن کہا ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر تک پہنچ جانے کی وجہ سے ان کی منصب پر بحالی ممکن نہیں۔عدالت عظمیٰ کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل نے انہیں الزامات ثابت کرنے کا موقع دیا نہ روبرو کروایا حالانکہ کونسل پر لازم تھا کہ انکوائری کراکے تعین کرتی کہ درخواست گزار جج اور جواب گزار جسٹس انور کانسی اور فیض حمید وغیرہ میں سے کون سچا ہے کون جھوٹا؟ سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ ججوں کو محض سپریم جوڈیشل کونسل اور شکایت کنندگان کی پسند و نا پسند پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ تاہم جسٹس شوکت صدیقی کے مطالبے کے مطابق جس کا اظہار انہوں نے گزشتہ رات جیو کے پروگرام میں کیا، ان الزامات کی تحقیق بھی لازماً ہونی چاہیے جو فاضل جج نے طاقتور شخصیات پر عائد کیے ہیں تاکہ عدلیہ کے طاقتوروں کی خواہشات کا کھلونا بنے رہنے کا سلسلہ ہمیشہ کیلئے بند ہو اور ملک میں عدل و انصاف کی حکمرانی پائیدار قائم ہو۔

تازہ ترین